مشکوٰۃ المصابیح - حساب قصاص اور میزان کا بیان - حدیث نمبر 5473
وعن عائشة أنها ذكرت النار فبكت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يبكيك ؟ . قالت ذكرت النار فبكيت فهل تذكرون أهليكم يوم القيامة ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما في ثلاثة مواطن فلا يذكر أحد أحدا عند الميزان حتى يعلم أيخف ميزانه أم يثقل ؟ وعند الكتاب حين يقال ( هاؤم اقرؤوا كتابيه ) حتى يعلم أين يقع كتابه أفي يمينه أم في شماله ؟ أم من وراء ظهره ؟ وعند الصراط إذا وضع بين ظهري جهنم . رواه أبو داود .
قیامت کے دن کے تین ہولناک موقعے
اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ( ایک دن) وہ یعنی حضرت عائشہ دوزخ کی آگ کا خیال کرکے رونے لگیں یعنی اچانک ان کے دل میں دوزخ کا خیال آگیا تو اس کی دہشت سے ان پر گریہ طاری ہوگیا رسول کریم ﷺ نے ( ان کو اس طرح اچانک روتے دیکھا تو) پوچھا کہ یہ تمہیں کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟ انہوں نے کہا کہ مجھے دوزخ کی آگ کا خیال آگیا تھا؟ ( اس کی دہشت اور خوف سے) رونے لگی ہوں) اور ہاں کیا آپ ﷺ قیامت کے دن اپنے اہل و عیال کو بھی یاد رکھیں گے؟ رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ ویسے تو اہل بیت ہی کیا قیامت کے دن اپنی پوری امت کا خیال وفکر ہوگا لیکن) صورت حال یہ ہے کہ اس دن تین موقعے ایسے ہوں گے کہ وہاں کسی کو کسی کا خیال نہیں ہوگا یعنی مخصوص طور پر کسی کا خیال نہیں ہوگا۔ البتہ شفاعت عظمی عمومی طور پر تمام خلائق کے لئے ہوگی) ایک موقع تو وہ ہوگا جب ( اعمال و کردار کو تولنے کے لئے میزان سامنے ہوگی تاآنکہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کی میزان بھاری رہی یا ہلکی یعنی جب تک اعمال تل نہ لیں گے اور یہ پتہ نہ چل جائے گا کہ نیک اعمال کا پلا جھک گیا ہے یا اوپر کو اٹھ گیا ہے تب تک ہر شخص اپنی اپنی فکر میں گرداں رہے گا دوسرا موقع وہ ہوگا جب اعمال نامے ( ہاتھوں میں) حوالے کئے جائیں گے یہاں تک یہ نہ کہا جانے لگے کہ آؤ میرا اعمال نامہ پڑھو اور جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ پیٹھ کے پیچھے سے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے، یا بائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ یعنی دوسرا ہولناک موقع وہ ہوگا جب ہر ایک کے بارے میں نجات یا عذاب کا فیصلہ ہونے کو ہوگا اور لوگوں کے اعمال نامے ان کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کے ہاتھوں میں تھما دئیے جائیں گے چناچہ جو شخص نجات یافتہ ہوگا اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور جو شخص مستوجب عذاب گردانا جائے گا اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں ہوگا اور اس طرح اس وقت جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ کس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں اور کس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دوبارہ ہے اور جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں آئے گا وہ مارے خوشی کے یہ نہ کہہ اٹھے کہ آؤ میرا عمال نامہ پڑھ لو تب تک ہر شخص فکر وتردد میں رہے گا اور کسی کو اس کا ہوش و خیال نہیں رہے گا) اور تیسرا موقع وہ ہوگا جب لوگ پل صراط ( پر سے گزرنے) کے قریب ہوں گے اور وہ پل صراط جہنم کی پشت پر ( یعنی اس کے دہانے پر) رکھا جائے گا ( یہاں تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس پر سے عافیت کے ساتھ گزر کر نجات پالی ہے یا جہنم میں گرپڑا ہے۔ ( ابوداؤد)

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن خاص طور پر تین موقعے ایسے ہوں گے جن کی دہشت وہولنا کی سب کو اس طرح حیران دور ماندہ اور وحشت زدہ بنا دے گی کہ کسی کو کسی فرد کی خبر نہیں ہوگی اور نہ کوئی کسی کو یاد کرنے اور اس کا حال جاننے کی مہلت پائے گا، ہر شخص اپنی ہی فکر میں رہے گا اور اس کو ہر لحمہ یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ نہ معلوم میرا کیا حشر ہو اور مجھے کسی انحام سے جو چار ہونا پڑے۔ جیسا کہ پہلے بھی تبایا جا چکا ہے اور یہاں ترجمہ کے دوران بھی واضح کردیا گیا ہے، جب ہر شخص کے فرک و عقیدہ اور اعمال و کردار کی چھان بین ہوچکے گی، میزان میں اعمال نامے تولے جا چکے ہوں گے اور وہ بارگاہ الٰہی سے ہر شخص کی سعادت و شقاوت کا فیصلہ ہوجائے تو سب کے اعمال نے مے ان کے ہاتھوں میں پہنچ جائین گے، جن لوگوں کے اعمال نامے ان کے داہنے میں پہنچیں گے وہ نجات یافتہ ہوں گے اور جن لوگوں کے اعمال نامے ان کے بائیں میں پہنچیں گے وہ اہل عذاب ہوں گے! نیز لوگوں کے ہاتھوں میں ان کے اعمالناموں کے پہنچنے کی صورت یہ ہوگی کہ دائیں ہاتھ کو گردن میں ڈال کر پشت کی طرف سے نکالا جائے گا اور بائیں ہاتھ کو بغل کے نیچے سے نکال کر پشت کی طرف لے جایا گا اور پھر پشت کی طرف سے ہاتھوں میں اعمال نامے دیدیئے جائیں گے۔ پل صراط بال سے زیادہ تاریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا، اس کو جہنم کی پشت پر یعنی اس کے دہانے پر قائم کیا جائے گا اور پھر ہر ایک کو اس کے اوپر سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا، اہل ایمان کہ جو نجات یافتہ ہوں گے اپنے اعمال و مراتب کے اعتبار سے اس کے اوپر سے گزر جائیں گے اور جنت میں پہنچ جائیں گے، چند اہل کفر، جو مستوجب عذاب ہوں گے اس پر سے گر کر دوزخ میں جا پڑیں گے عافانا اللہ الکریم۔
Top