مشکوٰۃ المصابیح - صور پھونکے جانے کا بیان - حدیث نمبر 5437
وعن عائشة قالت سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قوله ( يوم تبدل الأرض غير الأرض والسماوات ) فأين يكون الناس يومئذ ؟ قال على الصراط . رواه مسلم .
قیامت کے دن زمین و آسمان کی تبدیلی کے متعلق
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے اس آیت (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ) 14۔ ابراہیم 48) جس روز زمین بدل دی جائے گی اس زمین کو بدل دیا جائے گا اور ان کے علاوہ اور آسمان بھی ( یعنی قیامت کے دن موجودہ زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور ان کے بجائے دوسرے زمین و آسمان پیدا کئے جائیں گے) کے بارے میں پوچھا کہ اس دن جب کہ زمین و آسمان کی تبدیلی واقع ہوگی) لوگ کہاں ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا پل صراط پر۔ ( مسلم )

تشریح
لفظ صراط کے اصل معنی راستہ کے ہیں اور یہاں حدیث میں صراط سے مراد پل صراط ہے یعنی وہ پل جس کے بارے میں شارع نے خبر دی ہے کہ وہ دوزخ کی پشت پر بنا ہوا ہے اور جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پل صراط کے بجائے کوئی بھی صراط مراد ہو۔ قیامت کے دن زمین کے تبدیل کئے جانے سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، جس میں سے ایک قول تو یہ ہے کہ قیامت کے دن زمین کو سفید روٹی میں تبدیل کردیا جائے گا، چناچہ اہل ایمان میدان حضر میں حساب سے فارغ ہونے کے وقت تک اپنے قدموں کے نیچے سے یہی روٹی توڑ توڑ کر کھاتے رہیں گے، اس قول کی تائید اسی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو آگے آنے والے باب الحشر کی پہلی حدیث ہے، نیز آسمان کے تبدیل کئے جانے سے مراد یہ ہے کہ تارے ٹوٹ پھوٹ کر گرپڑیں گے اور چاند وسورج کو کہن کی صورت میں معطل و بیکار کردیا جائے گا! اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ کسی بھی چیز کی تبدیلی دو صورتوں میں ہوتی ہے ایک تو ذات ( یعنی اصل چیز) کی تبدیلی، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے سونے کو چاندی میں تبدیل کرلیا ہے، یعنی سونا دیکر چاندی لے لی ہے اور دوسری صورت صفات کی تبدیلی ہے جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے چھلے کو انگوٹھی میں تبدیل کرلیا ہے، یعنی چھلے کو پگھلا کر اس کی انگوٹھی بنوالی ہے، اس صورت میں ذات ( یعنی اصل چیز مثلا سونا یا چاندی، تو ایک ہی رہتی ہے البتہ اس کی حقیقت اور صورت بدل جاتی ہے، پس زمین و آسمان کے دوسری زمین اور دوسرے آسمان میں تبدیل کئے جانے والی بات ان دونوں صورتوں کا احتمال رکھتی ہے کہ اصل زمین و آسمان کی تبدیلی بھی مراد ہوسکتی ہے اور صفات یعنی ہیت و صورت کی تبدیلی بھی مراد ہوسکتی ہے، لیکن سلف کے زیادہ تر اقوال اس طرف ہیں کہ صفات کی تبدیلی مراد ہے، چناچہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ زمین تو یہی زمین رہے گی البتہ اس کی صفات میں تغیر ہوجائے گا، اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ کا ارشاد ہے کہ زمین کو اس طرح وسیع و کشادہ کردیا جائے گا کہ اس میں کوئی نشیب و فراز باقی نہیں رہے گا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذات کی تبدیلی بالکل ناممکن ہے، یقینا اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس زمین اور ان آسمانوں کی جگہ دوسری زمین اور دوسرے آسمان پیدا کر دے جیسا کہ بعض اقوال اس پر بھی دلالت کرتے ہیں، چناچہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ حق تعالیٰ ایک ( نئی) زمین پیدا فرمائیں گے جو چاندی کی ہوگی اور جو آسمان پیدا فرمائینگے وہ سونے کا ہوگا، اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی زمین پیدا فرمائیں گے جو سفید و پاکیزہ ہوگی اور اس پر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا، خود حدیث کے ظاہری اسلوب سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ تبدیلی سے ذات کا تغیر مراد ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا سوال کرنا اور اس پر آنحضرت ﷺ کا جواب اس کی دلیل ہے۔
Top