مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5602
ابتدائے پیدائش اور انبیاء (علیہ السلام) کے ذکر کا بیان :
ابتدائے پیدائش سے مراد اس کائنات کا عالم وجود میں آنا اور مخلوقات کی پیدائش و تخلیق کا سلسلہ شروع ہونا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) چونکہ اس کائنات کا جوہر ہیں، دین وملت کی تدوین و تربیت کا نقطہ آغاز ان ہی کی ذات ہے، امور عالم کا نظم و انتظام اور اصلاح انہی سے وابستہ ہے اور نوع انسانی کی پیدائش کا سلسلہ ابوالبشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہی سے شروع ہوتا ہے جو نبی اول بھی ہیں اس لئے ان مقدس نفوس کے ذکر کو عنوان باب کا دوسرا جزء قرار دیا گیا ہے۔ عالم حادث ہے سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین رہنا چاہئے کہ تمام مذہب سماویہ اور ملتیں یہاں تک مجوسی بھی اس پر متفق ہیں کہ عالم حادث ہے یعنی یہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز عدم سے وجود میں آئی ہے، اللہ کے سوا کوئی بھی چیز پہلے موجود نہیں تھی بعد میں اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اس بارے میں سب سے بہتر شہادت مخبر صادق ﷺ کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا۔ کان اللہ ولم یکن معہ شیئ۔ صرف اللہ کی ذات موجود تھی اس کے ساتھ کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح وقلم کو پیدا کیا اور مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (تقدیر) لکھی، اس کے بعد عرش کرسی، آسمانوں، زمینوں، فرشتوں اور جنات و انسان کو پیدا فرمایا۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام اجسام اپنی ذات وصفات کے ساتھ حادث ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اجسام میں سے جو چیز سب سے پہلے پیدا ہوئی وہ پانی ہے کیونکہ یہ خصوصیت صرف پانی کو حاصل ہے کہ وہ ہر شکل و صورت اختیار کرسکتا ہے اور تمام چیزوں کا مادہ تخلیق بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، چناچہ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی ہی تھا جس میں لطافت پیدا ہوئی تو ہوا عالم وجود میں آئی پھر اس کے جوہر سے آگ پیدا ہوئی اور اس کے دھوئیں سے آسمان بنا واضح رہے کہ آسمان پر دخان یعنی دھوئیں کا اطلاق قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ یہ قول کہ کائنات کی ہر چیز کا مادہ تخلیق پانی ہے اور پانی ہی کے جوہر سے آگ اور اس کے دھوئیں سے آسمان پیدا ہوا۔ قدیم حکماء میں سے ایک شخص ط اس ملطی کی طرف منسوب ہے لیکن علماء نے کہا ہے کہ ط اس ملطی نے یہ بات آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے اخذکر کے کہی ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس سلسلہ میں جو کچھ فرمایا ہے اس کی تصدیق نہ صرف حکماء قدیم وجدید کے اقوال سے ہوتی ہے بلکہ قدیم آسمانی کتابوں میں بھی اسی طرح منقول ہے چناچہ توریت کے پہلے صفحہ میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اس کائنات ارضی وسماوی کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو) ایک جوہر پیدا فرمایا اور اس پر ہیبت و جلال کی نظر ڈالی جس سے اس جوہر کے اجزاء پگھل کر پانی ہوگئے پھر اس میں سے دھوئیں کے مانند بخارات اٹھے جس سے آسمان کو پیدا کیا اور پھر اس پانی پر جھاگ ظاہر ہوا جس سے زمین کو وجود بخشا اور زمین کو جمانے اور قائم رکھنے کے لئے پہاڑوں کو پیدا فرمایا۔ بہرحال ابتدائے تخلیق کائنات کا موضوع بڑا وسیع اور خاصا بحث طلب مانا گیا ہے، ہمیشہ سے حکماء اور دانشور اس میں مصرف تحقیق رہے ہیں اور کتنے ہی مختلف نظریات و اقوال سامنے آچکے ہیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس موضوع کا تعلق ایسے امور سے ہے جن کو محض عقل و قیاس سے معلوم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کی حقیقت تک رسائی کا مدار خالق کائنات کے عطا کردہ اس علم اور اس علم سے اخذواستنباط پر ہے جو بذریعہ وحی دنیا میں آیا ہے اور جس کو آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعہ دنیا والوں تک پہنچا بھی دیا ہے۔
Top