مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5617
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : جاء ملك الموت إلى موسى ابن عمران فقال له : أجب ربك . قال : فلطم موسى عين ملك الموت ففقأها قال : فرجع الملك إلى الله فقال : إنك أرسلتني إلى عبد لك لا يريد الموت وقد فقأ عيني قال : فرد الله إليه عينه وقال : ارجع إلى عبدي فقل : الحياة تريد ؟ فإن كنت تريد الحياة فضع يدك على متن ثور فما توارت يدك من شعرة فإنك تعيش بها سنة قال : ثم مه ؟ قال : ثم تموت . قال : فالآن من قريب رب أدنني من الأرض المقدسة رمية بحجر . قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : والله لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جنب الطريق عند الكثيب الأحمر . متفق عليه
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور موت کا فرشتہ :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (جب) حضرت موسیٰ ابن عمران (علیہ السلام) (کی موت کا وقت قریب آیا ان) کے پاس موت کا فرشتہ عزرائیل (علیہ السلام) آیا اور کہا کہ اپنے پروردگار کی طرف سے پیغام اجل قبول فرمائیے یعنی آپ کی روح قبل ہونے کا وقت آپہنچا ہے واصل الی اللہ ہونے کے لئے تیار ہوجائیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سن کر فرشتہ موت کے طمانچہ رسید کردیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی آنحضرت ﷺ نے فرمایا موت کا فرشتہ دربار الہٰی میں واپس گیا اور عرض کیا کہ پروردگار تو نے مجھے روح قبض کرنے کے لئے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا جو موت نہیں چاہتا اور یہ کہ اس نے میری آنکھ بھی پھوڑ دی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرشتہ موت کی یہ شکایت سن کر اس کی آنکھ درست کردی اور یہ حکم دیا کہ میرے بندہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ کیا تم طویل زندگی چاہتے ہو؟ اگر تم طویل زندگی چاہتے ہو تو کسی بیل کی کمر پر اپنا ہاتھ یا دونوں ہاتھ رکھ دو تمہارے اس ہاتھ یا دونوں ہاتھوں کے نیچے جتنے بال آجائینگے ان میں سے ہر ایک بال کے عوض تمہاری زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہوجائے گا فرشتہ نے دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس طویل زندگی کا بھی آخری نتیجہ موت ہی ہے تو پھر وہ آج ہی کیوں نہ آجائے میں اسے وقت موت کی آغوش میں جانے کے لئے تیار ہوں لیکن میری یہ دعا ضرور ہے کہ رب کریم ( تدفین کے لئے مجھے ارض مقدس (یعنی بیت المقدس) سے قریب کردے اگرچہ ایک پھینکے ہوئے پتھرکے بقدر ہو اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر میں بیت المقدس کے قریب ہوتا تو تمہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کا نشان دیکھا دیتا جو ایک راستے کے کنارے پر سرخ ٹیلے کے قریب ہے ( بخاری ومسلم) شریح رب کریم مجھے ارض مقدس سے قریب کردے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آخری وقت میں یہ دعا اس لئے کی کہ وہ بیت المقدس کے قریب دفن ہونا چاہتے تھے اور اس زمانہ میں وہی جگہ سب جگہوں سے افضل و اشرف تھی کیونکہ انبیاء کا مدفن اور مزارات ہوسکتا ہے کہ مذکورہ واقعہ کے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میدان تیہ (صحراسینا) میں ہونگے لہٰذا انہوں نے آخری وقت میں بیت الرب (یعنی بیت المقدس) کی قربت کی خواہش ظاہر کی اور اس خواہش کی شدت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا کہ چاہے یہاں سے وہ قربت اتنے کم فاصلہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو جو ایک پھینکا ہوا پتھر طے کرتا ہے نیز انہوں نے بیت المقدس کے قریب دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا انہیں یہ خوف تھا کہ اگر میں نے بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش کی تو میری قبر بہت مشہور اور زیارت گاہ خلائق ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ لوگ اس کی وجہ سے کتنے فتنہ اور برائی میں مبتلا ہوجائینگے۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ حدیث میں جس سرخ ٹیلے کا ذکر ہے وہ ایک بستی اریحاء کے قریب ہے اور بستی میدان تیہ کے سب کے قریب وادی مقدس کا علاقہ ہے بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلحاء کے مزارات مدفن کے قریب متبرک جگہوں میں دفن ہونا مستحب ہے۔ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ بعض لوگ جو عقل و قیاس کے اسیر ہیں انہوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہے وہ کہتے ہیں فرشتہ موت کا آنکھوں سے ہاتھ دھوبیٹھنا کیا معنی رکھتا ہے روح قبض کرنے کے لئے آنے والے فرشتہ کے طمانچہ رسید کرنا انسانی طاقت کے لئے کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور یہ کہ اس واقعہ سے موت کو غیر پسندیدہ اور غیر مرغوب شئے سمجھنا اور دنیا میں زیادہ دنوں تک باقی رہنے کی آرزو کرنا لازم آتا ہے اور یہ چیز اس انسان کے شایان شان نہیں ہوسکتی جو نبوت و رسالت جیسے عظیم الشان منصب پر فائز ہو۔ ان باتوں کا جواب الفاظ حدیث کی اس تعبیر میں مل جاتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں موت کا فرشتہ حاضر ہوا تو وہ انسانی شکل و صورت میں تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کو دیکھ کر پہچان نہ سکے کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور میری روح قبض کرنے آیا ہے، ان کو یہ ناگوار گذرا کہ ایک اجنبی شخص بغیر اجازت کیوں اس کے خلوت کدہ میں گھس آیا ہے، پھر اس نے ان کو موت کا پیغام دیا تو یہ خطرہ بھی ہوا کہ کہیں یہ شخض قتل کرنے کی نیت سے تو میرے پاس نہیں آیا اس لئے ان کو طیش بھی آیا اور انہوں نے اس کے خلاف اس کے خلاف دفاعی اقدام کرنا ضروری سمجھا، چناچہ اس کے منہ پر طمانچہ ماردیا، فرشتہ بشکل انسان تھا لہٰذا بشری اثرات نے کام کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زبردست طمانچہ کی چوٹ سے اس کی آنکھ جاتی رہی۔ پھر یہ کہ انہوں نے اس کو ایک دروغ گو کی حیثیت میں بھی دیکھا کیونکہ اس نے روح قبض کرنے کا دعوی کیا تھا کہ کوئی انسان روح قبض کرنے والا نہیں ہوسکتا لہٰذا ان کو اس دروغ گوئی پر غصہ آیا اور دورغ گو پر غصہ للہ فی للہ ہوتا ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی اعتراض کیسے ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے ان کے اس اقدام پر بارگاہ حق سے کوئی عتاب بھی نہیں ہوا۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس اقدام کے بعد بھی فرشتہ موت نے اپنی اصل حیثیت ظاہر نہ کی اور ان کو یہ بتائے بغیر کہ وہ موت کا فرشتہ ہی غائب ہوگیا اور درگاہ الہٰی میں جاپہنچا، اب اللہ تعالیٰ نے اس کو پھر ملکوتی ہیئت پر واپس کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں دوبارہ بھیجا اور اس طرح وہ اس عیب و نقصان سے بری ہوگیا جو بشری شکل و صورت میں آنکھ مجروح ہوجانے سے پیدا ہوگیا تھا، ادھر فرشۃ موت نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیالات سے آشنا ہوئے بغیر خود ہی یہ سمجھ لیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) موت کے نام سے خفا ہوگئے اور موت نہیں چاہتے اور دربار الہٰی میں جاکریہی شکایت بھی کی لیکن اللہ تعالیٰ تو اصل صورت حال جانتا تھا اس نے فرشتہ کی غلط فہمی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جلالت شان دونوں کے اظہار کے لئے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ فرشتہ موت دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بلیغ انداز میں موت کا پیغام پہنچائے ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اجنبی شخص کے یکایک غائب ہوجانے پر فورا محسوس کرلیا کہ درحقیقت یہ معاملہ عالم بالا کا ہے، چناچہ فرشتہ موت نے جب دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغام الہٰی سنایا تو ان کا طرز عمل اور طریقہ گفتگو فورا بدل گیا پھر انہوں نے پیغام اجل کو لبیک کہنے میں مزاج دیر نہیں کی اور رفیق اعلی سے جاملے، کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مزاج میں نہایت تیزی وشدت تھی وہ جلال کا مظہر تھے، مزاج اور اصول کے خلاف کوئی بات ان کے لئے ناقابل برداشت بن جاتی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ چلہ کشی اور تورات لینے کے لئے جبل طور یا حوراب پہاڑ پر تشریف لے گئے تو اپنے پیچھے بنی اسرائیل کا نگہبان اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بنا گئے تھے، جب ان کو گئے ہوئے ایک ماہ سے زائد گذر گیا تو بنی اسرائیل کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا اور ایک بدباطن شخص سامری کے بہکانے میں آکر قوم کے لوگ گوسالہ (بچھڑے) کی پرستش کرنے لگے، حضرت ہارون (علیہ السلام) نے قوم کو بہت سمجھایا اور اس مشرکانہ حرکت سے لاکھ منع کیا مگر کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے اور قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلا دیکھا تو بپھر گئے اور یہ خیال کرکے کہ ہارون (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو شرک سے باز رکھنے میں کوتاہی کی ہے، ان کی گردن پکڑ لی اور ان کے سرکے نوچنے لگے اور ڈاڑھی تک پر ہاتھ ڈال دیا، حضرت ہارون (علیہ السلام) نے پوری صورت حال بتائی اور اپنا بےقصور ہوناثابت کردیا تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جلال اور غصہ سے ان کی خلاصی ہوئی۔ بہرحال اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس پر عقیدہ رکھنا چاہے اور اگر اس کی کچھ باتیں خلاف قیاس معلوم ہوتی ہوں تو اپنے فہم کا تصور سمجھنا چاہئے اگرچہ مندرجہ بالا صحیح تعبیرات وتاویلات کی روشنی میں دیکھنے کے بعد اس حدیث میں کوئی بات قیاس کے خلاف معلوم ہی نہیں ہوسکتی۔
Top