مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 547
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَقْتُ الظُّہْرِ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُوْلِہٖ مَالَمْ ےَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَالَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ مَالَمْ ےَغِبِ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الْعِشَآءِ اِلٰی نِصْفِ الَّےْلِ الْاَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ مَالَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ فَاِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَاَمْسِکْ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَاِنَّھَا تَطْلُعُ بَےْنَ قَرْنَیِ الشَّےْطَانِ۔(صحیح مسلم)
نماز کے اوقات کا بیان
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ظہر کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے اور اس کا آخری وقت جب تک ہے کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر ہوجائے عصر کے آنے کے وقت تک۔ اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہوجائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہوجائے اور نماز عشاء کا وقت ٹھیک آدھی رات تک ہے اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکل آئے اور جب سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس سے پہلے کہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے نماز کے اوقات کے بارے میں عرض کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اصطلاحی الفاظ کے معنی بیان کر دے جائیں جن کو سمجھنے کے بعد مقصد تک پہنچے میں بڑی آسانی ہوجائے گی۔ زوال۔۔۔ آفتاب کے ڈھلنے کو کہتے جسے ہماری عرف میں دوپہر ڈھلنا کہا جاتا ہے۔ سایہ اصلی۔۔۔ اس سایہ کو کہتے ہیں جو زوال کے وقت باقی رہتا ہے۔ یہ سایہ ہر شہر کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کسی جگہ بڑا ہوتا ہے، کسی جگہ چھوٹا ہوتا ہے اور کہیں بالکل نہیں ہوتا، جیسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں۔ زوال اور سایہ اصلی کے پہچاننے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ ایک سیدھی لکڑی ہموار زمین پر گاڑی جائے اور جہاں تک اس کا سایہ پہنچے اس مقام پر ایک نشان بنادیا جائے پھر دیکھا جائے کہ وہ سایہ اس نشان کے آگے بڑھتا ہے یا پیچھے ہٹتا ہے۔ اگر آگے بڑھتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی زوال نہیں ہو اور اگر پیچھے ہٹے تو زوال ہوگیا۔ اگر یکساں رہے نہ پیچھے ہٹے نہ آگے بڑھے تو ٹھیک دوپہر کا وقت ہے اس کو استواء کہتے ہیں۔ ایک مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔ دو مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس سے دو گنا ہوجائے۔ ان اصطلاحی تعریفات کو سمجھنے کے بعد اب حدیث کی طرف آئیے سرکار دو عالم ﷺ نے اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے پہلے ظہر کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے وقت نماز کی تعلیم کے سلسلے میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو یہی نماز پڑھائی تھی، یہی وجہ ہے کہ نماز ظہر کی نماز کو پیشین کہا جاتا ہے۔ نماز ظہر کا اول وقت اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب کہ آسمان کہ درمیان آفتاب مغرب کی طرف تھوڑا سامائل ہوتا ہے جس کو زوال کہتے ہیں اور اس کا آخری وقت وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر علاوہ سایہ اصلی کے ہوجاتا ہے۔ سایہ اصلی کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ وہ سایہ ہوتا ہے جو زوال کے وقت ہوتا ہے یعنی اکثر مقامات پر جب کہ آفتاب سمت راس پر نہیں آتا وہاں ٹھیک دوپہر کے وقت ہر چیز کا تھوڑا سا سایہ ہوتا ہے اس سائے کو چھوڑ کر جب تک کسی چیز کے طول کے برابر سایہ رہے گا ظہر کا وقت باقی رہے گا۔ مالم یحضر العصر (عصر کا وقت آنے تک) یہ جملہ دراصل پہلے جملہ کی تاکید ہے کیونکہ جب ایک مثل تک سایہ پہنچ گیا تو وقت ظہر ختم ہوگیا۔ اور عصر کا وقت شروع ہوگیا چونکہ اس جملے کا مطلب پہلے ہی جملے سے ادا ہوگیا تھا اس لئے یہی کہا جائے گا کہ یہ جملہ پہلے جملے کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے ہاں اتنی بات اور کہی جاسکتی ہے کہ یہ جملہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیان وقت مشترک نہیں ہے جیسا کہ امام مالک (رح) کا مسلک ہے۔ عصر کے وقت کی ابتداء تو معلوم ہوگئی کہ جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا عصر کا وقت شروع ہوجائے گا۔ آخری وقت کی بات یہ ہے کہ جب تک آفتاب زرد نہیں ہوجاتا عصر کا وقت بلا کراہیت باقی رہتا ہے چناچہ حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے۔ البتہ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک وقت جو از باقی رہتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفتاب کی زردی سے کیا مراد ہے تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ آفتاب کے زرد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اتنا بدل جائے کہ اس کی طرف نظر اٹھانے سے آنکھوں میں خیرگی نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غروب آفتاب کی جو شعاعیں دیوار وغیرہ پڑتی ہیں اس میں تغیر ہوجائے۔ لگے ہاتھوں اتنی بات اور جانتے چلئے کہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نیز حضرت امام زفر (رح) وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک باقی رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے چناچہ ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا آخری وقت ایک مثل تک رہتا ہے۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ (رح) کا تعلق ہے تو ایک روایت کے مطابق ان کا بھی وہی مسلک ہے جو جمہور علماء کا ہے بلکہ بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ امام اعظم کا فتویٰ بھی اسی مسلک پر ہے۔ چناچہ درمختار میں بہت سی کتابوں کے حوالوں سے اسی مسلک کو ترجیح دی گئی ہے۔ مگر ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ان کے دلائل ہدایہ وغیر میں مذکور ہیں۔ بہر حال علماء نے اس سلسلہ میں ایک صاف اور سیدھی راہ نکالی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ ظہر کی نماز تو ایک مثل کے اندر اندر پڑھ لی جاے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہوجائیں۔ مغرب کا وقت آفتاب چھپنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور شفق غائب ہوجانے کے وقت ختم ہوجاتا ہے۔ اکثر ائمہ کے نزدیک شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو آفتاب چھپنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے چناچہ اہل لغت کا کہنا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم اور علماء کی ایک دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ شفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی ختم ہونے کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ اہل لغت و دیگر ائمہ کے قول کے مطابق حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہ ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے چناچہ شرح وقایہ میں فتوی اسی قول پر مذکور ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مغرب کی نماز تو سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی جائے اور عشاء کی نماز سفیدی غائب ہونے کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہوں۔ عشاء کے بارے میں مختار مسلک اور فیصلہ یہ ہے کہ اس کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ٹھیک آدھی رات تک بلا کراہت باقی رہتا ہے البتہ وقت جو طلوع فجر سے پہلے تک رہتا ہے۔ فجر کا وقت طلوع صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ بظاہر تو حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلوع صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک تمام وقت نماز فجر کے لئے مختار ہے مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت مختار اسفار تک ہے اس کے بعد وقت جواز رہتا ہے۔ نماز کے اوقات کی تفصیل جان لینے کے بعد اب حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بھی سمجھ لیجئے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب کہ سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج نکلنے کی جگہ شیطان کے دونوں سینگ ہیں کہ سورج اس کے اندر سے طلوع ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب خود ایک روایت نے بتادیا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت شیطان آفتاب کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا سر آفتاب کے نزدیک کرلیتا ہے اسی طرح غروب آفتاب کے وقت کرتا ہے اس کے اس طرز عمل کا سبب یہ ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ان کفار کے اس طرز عمل کے ذریعہ وہ اپنا گمان یہ رکھتا ہے کہ لوگ میری عبادت کر رہے ہیں اسی طرح وہ اپنے تابعداروں کے ذہن میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ یہ لوگ آفتاب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہیں بلکہ درحقیقت میری عبادت کر رہے ہیں اور میرے سامنے ماتھے ٹیکتے ہیں۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز نہ پڑھا کریں تاکہ مسلمانوں کی عبادت شیطان کو پوجنے والوں کی عبادت کے اوقات میں نہ ہو۔
Top