مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 548
وَعَنْ بُرَےْدَۃَص قَالَ اِنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ وَقْتِ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ لَہُ صَلِّ مَعَنَا ھٰذَےْنِ ےَعْنِی الْےَوْمَےْنِ فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ اَمَرَ بِلَالًا فَاَذَّنَ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الظُّہْرَ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَےْضَآءُ نَقِےَّۃٌ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْمَغْرِبَ حِےْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْعِشَآءَ حِےْنَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْفَجْرَ حِےْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا اَنْ کَانَ الْےَوْمُ الثَّانِیْ اَمَرَہُ فَاَبْرِدْ بِالظُّہْرِ فَاَبْرَدَبِھَا فَاَنْعَمَ اَنْ ےُبْرِدَ بِھَا وَصَلَّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌاَخَّرَھَا فَوْقَ الَّذِیْ کَانَ وَصَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ اَنْ ےَّغِےْبَ الشَّفَقُ وَصَلَّی الْعِشَآءَ بَعْدَ مَا ذَھَبَ ثُلُثُ الَّلےْلِ وَصَلَّی الْفَجْرَ فَاَسْفَرَبھِاَ ثُمَّ قَالَ اَےْنَ السَّآئِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ الرَّجُلُ اَنَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَقْتُ صَلٰوتِکُمْ بَےْنَ مَا رَأَےْتُمْ۔(صحیح مسلم)
نماز کے اوقات کا بیان
اور حضرت بریدہ ؓ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کا وقت دریافت کیا (کہ نماز کا اوّل و آخر وقت کیا ہے) آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ دنوں میں تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تاکہ میں تمہیں نماز کے اوقات دکھا دوں) چناچہ جب سورج ڈھل گیا آپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو (اذان کا) حکم دیا، حضرت بلال ؓ نے اذان دی۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں (تکبیر کہنے کا، حکم دیا، انہوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی) پھر آپ ﷺ نے عصر کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج بلند اور سفید و صاف تھا (اور عصر کی نماز پڑھائی، پھر مغرب کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج غروب ہی ہوا تھا، (اور مغرب کی نماز پڑھائی) پھر عشاء کی اقامت کا حکم دیا جب کہ شفق غائب ہوئی تھی اور عشاء کی نماز پڑھائی) پھر فجر نمودار ہوتے ہیں آپ ﷺ نے تمام نمازیں اوّل وقت پڑھا کر دکھا دیں کہ نمازوں کا اول وقت یہ ہے) پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ ﷺ نے بلال ؓ کو ظہر کو ٹھنڈا کر کے اذان دینے کا حکم دیا اور خوب ٹھنڈا کر کہ ظہر کی نماز کو پڑھایا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا لیکن کل کے وقت سے دیر کر کے نماز پڑھائی اور مغرب کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے (یعنی شفق غائب ہونے کے قریب) پڑھائی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے پر پڑھائی اور فجر کی نماز خوب روشنی ہوجانے پر پڑھائی اور اس کے بعد فرمایا نماز کے اوقات دریافت کرنے والا آدمی کہاں ہے؟ اس آدمی نے سامنے (آکر عرض کیا یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں! آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری نماز کے اوقات ان اوقات کے درمیان ہیں جو تم ان دنوں میں) دیکھ چکے ہو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
سائل کا مطلب یہ تھا کہ نمازوں کے اوقات کے سلسلہ میں یہ بتادیا جائے کہ نماز کا اوّل وقت کیا ہوتا ہے اور آخر وقت کون سا ہوتا ہے؟ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے نمازوں کے اوقات کو زبانی سمجھانے سے زیادہ بہتر یہ سمجھا کہ اسے عملی طور پر دیکھا جائے تاکہ اوقات اس کے ذہن نشین ہو سکیں اس لئے آپ ﷺ نے اسے نماز کا اوّل و آخر دونوں وقت بتانے کے لئے پہلے دن تو نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھیں۔ حدیث میں پہلے ظہر کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ ﷺ نے بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے اذان دی پھر آپ ﷺ نے اقامت کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی۔ اس کے بعد عصر کا ذکر کیا گیا ہے لیکن نہ تو عصر کی نماز کا وقت ذکر کیا گیا ہے اور نہ عصر ہی اور نہ اس کے بعد کی اذانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معروف ہے۔ دوسرے دن آپ ﷺ نے ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا یعنی پہلے روز کے مقابلے میں دوسرے دن ظہر کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھی کہ گرمی کی شدت اور تپش کی سختی جاتی رہی تھی۔ عصر کی نماز آپ ﷺ نے پہلے روز کی تاخیر کے مقابلے میں زیادہ تاخیر سے یعنی دو مثلین کے بعد پڑھائی لیکن پہلے روز کی تاخیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عصر کی نماز میں پہلے روز تاخیر کی گئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز ظہر سے تاخیر کی گئی تھی۔ دوسرے روز آپ ﷺ نے تمام نمازوں کو تاخیر سے یعنی ان کے آخری اوقات میں ادا کیا جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا۔ مگر آپ ﷺ نے عشاء کو آخر وقت تک موخر نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ ﷺ عشاء کو اس کے آخر وقت مختار یعنی آدھی رات تک موخر کرتے تو اس سے لوگوں کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی ہوتی اور اگر آپ ﷺ عشاء سے پہلے سو رہتے تو مناسب نہ ہوتا کیونکہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا مکروہ ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے ان دو دنوں میں ہمارے ساتھ نماز پڑھ کر یہ دیکھ لیا ہے کہ نمازوں کا اوّل وقت کیا ہے اور آخری وقت کیا ہے لہٰذا شروع سے لے کر آخر تک اوّل وقت بھی ہے اور اوسط بھی اور آخر وقت بھی ہے لہٰذا اس کے درمیان تم جب چاہو نماز پڑھ سکتے ہو۔ آخر وقت سے مراد وقت مختار ہے نہ کہ وقت جواز۔ اس لئے کہ نمازوں کے جو آخری وقت آپ ﷺ نے بیان فرمائے ہیں۔ ان کے بعد بھی نماز کا وقت باقی رہتا ہے تاہم وہ وقت جواز ہوتا ہے وقت مختار نہیں ہوتا۔
Top