مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 553
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
ارشاد ربانی ہے آیت (فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰت) 2۔ البقرۃ 148) یعنی بھلائیوں میں جلدی کرو۔ آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کے بارے میں اصل یہی ہے کہ اسے جلدی یعنی اوّل وقت ادا کرلیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ آیت کا مفہوم تو یہی ہے کہ بھلائی کے تمام کاموں کو جن میں نماز بھی شامل ہے جلدی کر ڈالنا بہتر اور مناسب ہے مگر جن مواقع کے لئے شارع (علیہ السلام) نے تاخیر کا حکم فرمایا ہے وہاں تاخیر کرنا اولیٰ و افضل ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک تمام نمازوں کو ان کے اوّل وقت میں ادا کرنا مطلقا مستحب ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ سردی کے موسم میں تو ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھ لینی چاہئے مگر گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح فجر کی نماز ہر موسم میں اجالے میں پڑھنی چاہئے اور عشاء کی نماز تاخیر کے ساتھ پڑھنی چاہئے نیز عصر کی نماز بھی تاخیر کر کے پڑھنی چاہئے مگر اس میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ آفتاب متغیر ہوجائے نمازوں کو جلدی پڑھنے کی حدیہ ہے کہ ان کے اوّل وقت کے پہلے نصف حصہ میں ادا کی جائیں۔
Top