مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 557
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَاَبْرِدُوْا بِالصَّلٰوۃِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّلْبُخَارِیِّ عَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ بِالظُّھْرِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَےْحِ جَھَنَّمَ وَاشْتَکَتِ النَّارُ اِلٰی رَبِّھَا فَقَالَتْ رَبِّ اَکَلَ بَعْضِیْ بَعْضًا فَاَذِنَ لَھَا بِنَفَسَےْنِ نَفَسٍ فِی الشِّتَآءِ وَنَفْسٍ فِی الصَّےْفِ اَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ وَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الزَّمْھَرِےْرِ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَفِی رِوَاےَۃٍ لِّلْبُخَارِیِّ فَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ فَمِنْ سَمُوْمِھَا وَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْبَرْدِ فَمِنْ زَمْھَرِےْرِھَا۔
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں ابوسعید ؓ سے منقول ہے کہ ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھا کرو ( یعنی ابوہریرہ ؓ کی روایت میں تو بالصلوٰۃ کا لفظ آیا ہے اور ابوسعید کی روایت میں بالظہر کا لفظ آیا ہے نیز اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے اور (دوزخ کی) آگ نے اپنے رب سے شکایۃ عرض کیا کہ میرے پروردگا! میرے بعض (شعلے) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ہے۔ اب وہ ایک سانس جاڑے میں لیتی ہے اور ایک سانس گرمی میں۔ گرمی میں جس وقت تمہیں زیادہ گرمی معلوم ہوتی ہے اور جاڑے میں جس وقت تمہیں زیادہ سردی معلوم ہوتی ہے (تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں لیتی ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جس وقت تم گرمی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا گرم سانس ہوتا ہے اور جس وقت تم سردی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا ٹھنڈا سانس ہوتا ہے۔

تشریح
پروردگار سے دوزخ کی آگ کی نے یہ شکایت کی کہ میرے بعض (شعلے) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ کنایہ ہے اجزاء آگ کی کثرت سے اور آپس کے اختلاط سے یعنی آگے کے شعلے اتنے زیادہ ہوتے ہیں اور اس شدت سے بھڑکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ دوسرے شعلے کو فنا کر گھاٹ اتار کر اس کی جگہ بھی خود لے لے۔ چناچہ پروردگار نے اسے سانس لینے کی اجازت دے دی یعنی سانس سے مراد شعلے کو دبانا اور اس کا دوزخ سے باہر نکلنا ہے۔ جس طرح کہ جاندار سانس لیتا ہے تو ہوا باہر نکلتی ہے۔ بہر حال ایسے وقت باوجود یہ کہ مشقت بہت ہوتی ہے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسے سخت وقت میں جب کہ گرمی اپنی شدت پر ہوتی ہے دل و دماغ تپش کی وجہ سے بےچین ہوتے ہیں نیز خشوع اور سکون وا طمینان حاصل نہیں ہوتا جو نماز کی روح ہیں۔ اس موقع پر عقلی طور پر چند اشکال پیدا ہوتے ہیں ان کی وضاحت کر دینی ضروری ہے۔ پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ گرمی اور سردی کی شدت زمین کی حرکت، عرض البلد اور آفتاب کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے یہاں یہ کیسے کہا گیا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہاں دوزخ کی بھاپ کو گرمی کی شدت کا سبب بتایا گیا ہے نہ کہ اصل گرمی کا۔ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ گرمی اور سردی کی شدت بھی آفتاب کے قرب و بعد کی بناء پر ہوتی ہے کیونکہ اس کے باوجود ہوسکتا ہے کہ دوزخ کا سانس اس میں مزید شدت پیدا کرتا ہو لہٰذا اس کا انکار مخبر صادق کی خبر کے ہوتے ہوئے طریقہ اسلام کے منافی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اتنی بات تو طے ہے کہ زمین میں حرارت کی علت سورج کا مقابلہ اور اس کی شعاعیں پڑنا ہے اور یہ کہیں ثابت نہیں ہوا ہے کہ سورج دوزخ نہیں ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ہمارے نظام کی دوزخ یہی ہو جسے ہم سورج کہتے ہیں کیونکہ سورج میں ناریت کا تموج اور اشتعال اس قدر ہے کہ دوزخ کی تمام صفات اس پر منطبق ہوتی ہیں اور اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ سورج دوزخ نہیں ہے تو یہ بالکل بعید اور ناممکن نہیں ہے کہ دوزخ علیحدہ ہو اور اس کی گرمی کا اثر زمین پر پڑتا ہو۔ دوسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ نے شکایت کیسے کی کیونکہ دوزخ بےزبان ہے اور بےزبان اظہار مدعا کیسے کرسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح زبان کے لئے تلفظ ضروری نہیں ہے اسی طرح تلفظ کے لئے زبان بھی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر جانوروں کی زبان ہوتی ہے مگر وہ تلفظ نہیں کرتے ایسے ہی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے زبان نہیں ہوتی مگر وہ بات کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ اشکال پیدا کرنا کہ بغیر زبان کے بات کرنا ناممکن ہے کم فہمی کی بات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی یہ پوچھنے بیٹھ جائے کہ زبان سے بات کیوں کی جاتی ہے اس سے سننے کا کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ آنکھ سے دیکھتے اور کان سے سنتے کیوں ہو ان سے بات کیوں نہیں کرتے جب کہ یہ سب اعضاء بظاہر ایک ہی مادہ سے بنتے ہیں جو نطفہ ہے تو ہر ایک قوت کی تخصیص کی وجہ ایک خاص چیز سے کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ یہ صانع مطلق کی قدرت ہے کہ بولنا زبان سے مختص کیا، دیکھنا آنکھ سے اور سننا کان سے ورنہ یہ سب اعضاء گوشت کا ایک حصہ ہونے میں برابر ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ کیا صانع مطلق کی یہ قدرت نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی ایک مخلوق کو گویائی کی قوت دے دے اور جب کہ حکماء کی ایک جماعت تو یہ بھی کہتی ہے کہ اجرام فلکیہ میں نفوس ہیں اور ان میں احساس و ادراک کی قوت ہے تو اس صورت میں بولنا بعید ہے؟۔ تیسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ جاندار نہیں ہے وہ سانس کیسے لیتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دوزخ میں نفس ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے اور جب مذکورہ بالا بحث کی رو سے اس سے تکلم ثابت ہوسکتا ہے تو سانس لینے میں کیا اشکال باقی رہ جائے گا!۔ چوتھا اشکال یہ ہے کہ آگ کے ٹھنڈا سانس لینے کے کیا معنی؟۔ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ آگ سے مراد اس کی جگہ یعنی دوزخ ہے اور اس میں ایک طبقہ زمہریر بھی ہے۔ پانجواں اشکال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کے مفہوم کے مطابق تو یہ چاہئے تھا کہ سخت سردی کے موسم میں فجر کو بھی تاخیر سے پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سردی میں صبح کو سورج نکلتے تک اسی شدت کے ساتھ رہتی ہے اگر طلوع آفتاب تک نماز میں تاخیر کی جاتی ہے تو وہاں سرے سے وقت ہی جاتا رہتا۔ بہر حال۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود صحابہ بھی گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ چناچہ صحیح البخاری کی ایک روایت میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز (تاخیر سے) ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے زمین پر پڑنے لگتے تھے۔ اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ٹیلے چونکہ پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے ان کے سائے زمین پر بہت دیر کے بعد پڑتے ہیں بخلاف دراز چیزوں مثلاً مینار وغیرہ کے ان کے سائے جلدی ہی پڑنے لگتے ہیں۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز کے لئے دیواروں کے سائے میں ہو کر جاتے تھے۔ اور دیواروں کے بارے میں تحقیق ہوچکی ہے کہ اس وقت دیواریں عام طور پر سات سات گز کی ہوتی تھی۔ لہٰذا ان کے سائے میں چلنا اس وقت کار آمد ہوتا ہوگا جب کہ سورج کافی نیچے ہوتا ہو۔ بعض حضرات نے تاخیر کی حد آدھا وقت مقرر کی ہے یعنی کچھ علماء یہ فرماتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز آدھے وقت تک مؤخر کر کے پڑھنی چاہئے۔ بعض شوافع حضرات حدیث سے ثابت شدہ ابراد (یعنی نماز کو ٹھنڈا کر کے) کا محمول وقت زوال کو بتاتے ہیں یعنی ان کا کہنا یہ ہے کہ اس ابراد کا مقصد نماز ظہر میں اتنی تاخیر نہیں ہے جو حنفیہ بتاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت استواء کی شدید گرمی سے بچنے کے لئے زوال کی وقت ظہر کی نماز پڑھنی چاہئے۔ ان حضرت کی یہ تاویل نہ صرف یہ کہ بعیداز مفہوم ہے بلکہ خلاف مشاہدہ بھی ہے کیونکہ وقت استواء کے مقابلہ میں زوال کے وقت گرمی کی شدت میں کمی آجانے کا خیال تجربہ و مشاہدہ ہے۔ ہدایہ میں مذکور ہے کہ جن شہروں میں گرمی کی شدت آفتاب کے ایک مثل سایہ پہنچنے کے وقت ہوتی ہے وہاں تو ابراد کا مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ نماز ایک مثل سایہ ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ الحاصل۔ ظہر کی نماز کو ابراد میں یعنی ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے بارے میں بہت زیادہ حد یثیں وارد ہیں جن سے متفقہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کر کے پڑھنا ہی افضل و اولیٰ ہے۔ جہاں تک حدیث حباب ؓ کا تعلق ہے جس میں مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے گرمی کے موسم میں دوپہر کی شدت کے بارے میں شکایت کی تو آپ ﷺ نے ہماری درخواست قبول نہیں کی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو پورے وقت تک موخر کرنے کی درخواست کی تھی اس لئے آپ ﷺ نے اسے قبول نہیں فرمائی کہ اگر اتنی تاخیر کی جائے گی تو نماز کا وقت بھی نکل جائے گا۔ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابراد رخصت ہے اور وہ بھی سب کے لئے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لئے ہے جو جماعت کے لئے مسجدوں میں جانے کے لئے مشقت و محنت کا سامنا کرتے ہیں۔ جو لوگ تنہا نماز پڑھتے ہوں یا اپنے پڑوس و محلہ کی مسجد میں نماز کے لئے آتے ہوں ان کے لئے میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے کہ وہ اول وقت سے تاخیر نہ کریں، یہ قول ظاہر حدیث کے خلاف ہے اس لئے اس کی اتباع نہیں کی جاسکتی۔ حضرت امام ترمذی (رح) نے ایک حدیث نقل کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں بھی باوجود یہ کہ سب یکجا رہتے تھے ابراء کا حکم فرمایا کرتے تھے، نیز امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ جو آدمی گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے ظہر کی نماز کو تاخیر سے پڑھنے کے لئے کہتا ہے اس مسلک کی اتباع سنت کی وجہ سے اولیٰ و افضل ہے۔
Top