صحیح مسلم - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 4607
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَی فِيهِ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيئَ بِکِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ قَالَ وَکَانَ دَحْيَةُ الْکَلْبِيُّ جَائَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَی هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ لَهُ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ قَالَ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْکَذِبُ لَکَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ کَيْفَ حَسَبُهُ فِيکُمْ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ وَمَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قَالَ قُلْتُ تَکُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ فَوَاللَّهِ مَا أَمْکَنَنِي مِنْ کَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُکَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو حَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ فِي آبَائِهِ مَلِکٌ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُکَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَدَعَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَکْذِبَ عَلَی اللَّهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّکُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَکُونُ الْحَرْبُ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْکُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلَی ثُمَّ تَکُونُ لَهُمْ الْعَاقِبَةُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُکُمْ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ قَالَ إِنْ يَکُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّهُ مِنْکُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْکُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِکَ اللَّهُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ ارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَکَثُرَ اللَّغْطُ وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ قَالَ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ
نبی کریم ﷺ کا ہرقل کی طرف اسلام کی دعوت کے لئے مکتوب کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، ابن ابی عمر، محمد بن رافع، عبداللہ بن حمید، ابن رافع، ابن ابی عمر، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابوسفیان، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوسفیان ؓ نے اسے روبرو خبر دی کہ میں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان مدت معاہدہ کے دوران شام کی طرف چلا ہم شام میں قیام پذیر تھے کہ اسی دوران شام کی طرف رسول اللہ ﷺ کا خط لایا گیا جسے حضرت دحیہ کلبی لائے تھے پس انہوں نے یہ بصریٰ کے گورنر کے سپرد کیا اور بصریٰ کے گورنر نے وہ خط ہرقل کو پیش کیا تو ہرقل نے کہا کیا یہاں کوئی آدمی اس کی قوم کا آیا ہوا ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہے لوگوں نے کہا جی ہاں چناچہ مجھے قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا پھر کہا تم میں کون نسب کے اعتبار سے اس آدمی کے قریب ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں میں نے کہا میں ہوں تو اس نے مجھے اپنے سامنے اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا پھر اپنے ترجمان کو بلایا پھر اس سے کہا ان سے کہو میں اس آدمی کے بارے میں پوچھنے والا ہوں جس کا گمان ہے کہ وہ نبی ہے پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اس کی تکذیب کرنا ابوسفیان ؓ نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ مجھے جھوٹا کہیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ اس کا خاندان تم میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں نہایت شریف النسب ہے کیا اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا کیا تم اسے اس بات کا دعوی کرنے سے پہلے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا اس کی اتباع کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں یا کمزور و غریب؟ میں نے کہا بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں۔ اس نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے کہا کیا ان میں سے کوئی اپنے دین سے اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد آپ ﷺ سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی؟ میں نے کہا جی ہاں ہرقل نے کہا اس سے تمہاری جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟ میں نے کہا جنگ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ڈول رہی کبھی انہوں نے ہم سے کھینچ اور کبھی ہم نے ان سے کھینچ لیا اس نے کہا کیا وہ معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے؟ میں نے کہا نہیں اور ہم اس سے ایک معاہدہ میں ہیں ہم نہیں جانتے وہ اس بارے میں کیا کرنے والے ہیں ابوسفیان کہنے لگے اللہ کی قسم اس نے مجھے اس ایک کلمہ کے سوا کوئی بات اپنی طرف سے شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں دی ہرقل نے کہا کیا اس سے پہلے کسی اور نے بھی اس کے خاندان سے اس بات کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے کہو میں نے تجھ سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا اور تیرا گمان ہے کہ وہ تم میں سے اچھے خاندان والا ہے اور رسولوں کو اسی طرح اپنی قوم کے اچھے خاندانوں سے بھیجا جاتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے اور تیرا خیال ہے کہ نہیں تو میں کہتا ہوں اگر اس کے آباو اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ وہ ایسا آدمی ہے جو اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کا طالب ہے اور میں نے تجھ سے اس کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں پوچھا کیا وہ ضعیف طبقہ کے لوگ ہیں یا بڑے آدمی ہیں تو نے کہا بلکہ وہ کمزور ہیں اور یہی لوگ رسولوں کے پیروگار ہوتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم اسے اس دعوی سے قبل جھوٹ سے بھی متہم کرتے تھے اور تو نے کہا نہیں تو میں نے پہچان لیا جو لوگوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا ان لوگوں میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد ان سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے تو نے کہا نہیں اور اسی طرح ایمان کی حلاوت ہوتی ہے جب دل اس سے لطف اندوز ہوجائیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں تو نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں تو حقیقت میں ایمان کے درجہ تکمیل تک پہنچنے میں یہی کیفیت ہوتی ہے میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی اور تو نے کہا ہم اس سے جنگ کرچکے ہیں اور جنگ تمہارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح ہے کبھی وہ تم پر غالب اور کبھی تم اس پر غالب رہے اور رسولوں کو اسی طرح مبتلا رکھا جاتا ہے پھر آخر انجام فتح انہی کی ہوتی ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس نے معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کی؟ تو نے کہا: نہیں اور رسل (علیہم السلام) اسی طرح عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا یہ دعوی اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تو تم نے کہا نہیں تو میں کہتا ہوں اگر یہ دعوی اس سے پہلے کیا جاتا تو کہتا ہے یہ ایسا آدمی ہے جو اپنے سے پہلے کئے گئے دعوی کی تکمیل کر رہا ہے ابوسفیان نے کہا پھر ہرقل نے کہا وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں میں نے کہا وہ ہمیں نماز، زکوۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں ہرقل نے کہا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ سچ ہے تو وہ واقعتا نبی ہے اس نے کہا میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور تم میں سے ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں ان کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں مبارک دھوتا اور ان کی بادشاہت ضرور بالضرور میرے قدموں کے نیچے پہنچ جائے گی پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط مبارک منگوا کر پڑھا تو اس میں یہ تھا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے (یہ خط) بادشاہ روم ہرقل کی طرف۔ اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ اما بعد میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں اسلام قبول کرلو سلامت رہو گے اور اسلام قبول کرلے اللہ تجھے دوہرا ثواب عطا کرے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر (مطفق) ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں گے اور نہ ہمارے بعض دوسرے بعض کو اللہ کے سوا رب بنائیں گے پس اگر وہ اعراض کریں تو تم کہہ دو گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں۔ جب خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے سامنے چیخ و پکار ہونے لگی اور بکثرت آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور اس نے ہمیں باہر لے جانے کا حکم دیا میں نے اپنے ساتھیوں سے اس وقت کہا جب کہ ہمیں نکالا گیا کہ اب تو ابن ابی کبشہ رسول اللہ ﷺ کی بات بہت بڑھ گئی ہے کہ اس سے تو شاہ روم بھی خوف کرتا ہے اور اسی وقت سے مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ رسول اللہ ﷺ عنقریب غالب ہوں گے حتی کہ رب العزت نے اپنی رحمت سے مجھے اسلام میں داخل کردیا۔
Top