صحیح مسلم - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 4688
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ کَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ کِتَابَهُ وَحِينَ کَتَبَ جَوَابَهُ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ مَا کَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ قَالَ فَکَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّکَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَی الَّذِي ذَکَرَ اللَّهُ مَنْ هُمْ وَإِنَّا کُنَّا نَرَی أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ فَأَبَی ذَلِکَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا وَسَأَلْتَ عَنْ الْيَتِيمِ مَتَی يَنْقَضِي يُتْمُهُ وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّکَاحَ وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَدُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ فَقَدْ انْقَضَی يُتْمُهُ وَسَأَلْتَ هَلْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِکِينَ أَحَدًا فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَکُنْ يَقْتُلُ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا إِلَّا أَنْ تَکُونَ تَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنْ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ وَسَأَلْتَ عَنْ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ کَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ فَإِنَّهُمْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، وہب، ابن جریر، ابن حازم، یزید بن ہرمز، حضرت یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ بن عامر ؓ نے ابن عباس ؓ کی طرف لکھا اور اس میں حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر تھا جب انہوں نے اس کے خط کو پڑھا اور اس کا جواب لکھا ابن عباس ؓ نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ بدبو یعنی کسی برے کام میں پڑجائے گا تو میں اس کی طرف جواب نہ لکھتا اور نہ اس کی آنکھیں خوش ہوتیں پس ابن عباس نے نجدہ کی طرف لکھا کہ تو نے ان ذوی القربی کے حصہ کے بارے میں پوچھا (جن کا اللہ نے ذکر فرمایا) کہ وہ کون ہیں ہم نے خیال کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے ہم لوگ ہی مراد ہیں لیکن ہماری قوم نے ہمارے اس خیال کو ماننے سے انکار کردیا اور تو نے یتیم کے بارے میں پوچھا ہے کہ اس کی مدت یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ جب وہ نکاح کے قابل ہوجائے اور اس سے سمجھداری محسوس ہونے لگے تو اس کا مال اس کے حوالے کردیا جائے تو اس کی مدت یتیمی ختم ہوجاتی ہے اور تو نے پوچھا ہے کیا رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا اور تو بھی ان میں سے کسی کو بھی قتل نہ کر سوائے اس کے کہ تجھے ان کے بارے میں وہی علم ہوجائے جو خضر (علیہ السلام) کو بچے کے بارے میں اس کے قتل کے وقت ہوا تھا اور تو نے عورت اور غلام کے بارے میں پوچھا کیا ان کا حصہ مقرر شدہ ہے جب وہ جنگ میں شریک ہوں تو ان کے لئے کوئی مقرر شدہ حصہ مال غنیمت میں سے نہیں سوائے اس کے کہ لوگوں کے مال غنیمت میں سے انہیں کچھ بطور ہدیہ وعطیہ دید یا جائے۔
Top