صحیح مسلم - حج کا بیان - حدیث نمبر 3179
و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ الْکَعْبَةِ فَأَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ مَا لِي أَرَی بَنِي عَمِّکُمْ يَسْقُونَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ وَأَنْتُمْ تَسْقُونَ النَّبِيذَ أَمِنْ حَاجَةٍ بِکُمْ أَمْ مِنْ بُخْلٍ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا بِنَا مِنْ حَاجَةٍ وَلَا بُخْلٍ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ فَاسْتَسْقَی فَأَتَيْنَاهُ بِإِنَائٍ مِنْ نَبِيذٍ فَشَرِبَ وَسَقَی فَضْلَهُ أُسَامَةَ وَقَالَ أَحْسَنْتُمْ وَأَجْمَلْتُمْ کَذَا فَاصْنَعُوا فَلَا نُرِيدُ تَغْيِيرَ مَا أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حج کے دنوں میں پانی پلا نے کے فضیلت اور اس سے دینے کے استحباب کے بیان میں
محمد بن منہال ضریر، یزید بن زریع، حمید، بکر بن عبداللہ، حضرت بکر بن عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں کعبہ اللہ کے پاس حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے چچازاد تو شہد اور دودھ پلاتے ہیں اور آپ نبیذ (یعنی کھجوروں کا پانی) پلاتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ غربت یا بخل؟ تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نہ تو ہم غریب ہیں اور نہ بخیل بات دراصل یہ ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری پر تشریف لائے اور حضرت اسامہ ؓ سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے پانی طلب کیا تو ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں نبیذ کا برتن پیش کیا تو آپ ﷺ نے وہ پیا اور اس میں سے بچا ہوا حضرت اسامہ ؓ نے پیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا اور خوب کام کیا تو تم اسی طرح کرو۔ حضرت ابن عباس ؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو حکم دیا ہے ہم اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتے۔
Top