صحیح مسلم - حج کا بیان - حدیث نمبر 3245
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَائٍ قَالَ لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ فَکَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا کَانَ تَرَکَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّی قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ أَوْ يُحَرِّبَهُمْ عَلَی أَهْلِ الشَّامِ فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْکَعْبَةِ أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَائَهَا أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَی مِنْهَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا أَرَی أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَی مِنْهَا وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ لَوْ کَانَ أَحَدُکُمْ احْتَرَقَ بَيْتُهُ مَا رَضِيَ حَتَّی يُجِدَّهُ فَکَيْفَ بَيْتُ رَبِّکُمْ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا ثُمَّ عَازِمٌ عَلَی أَمْرِي فَلَمَّا مَضَی الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَی أَنْ يَنْقُضَهَا فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنْ السَّمَائِ حَتَّی صَعِدَهُ رَجُلٌ فَأَلْقَی مِنْهُ حِجَارَةً فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْئٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّی بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّی ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِکُفْرٍ وَلَيْسَ عِنْدِي مِنْ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَی بِنَائِهِ لَکُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ قَالَ فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ قَالَ فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنْ الْحِجْرِ حَتَّی أَبْدَی أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ فَبَنَی عَلَيْهِ الْبِنَائَ وَکَانَ طُولُ الْکَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ کَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِکَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَائَ عَلَی أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ فَکَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِکِ إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْئٍ أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَی بِنَائِهِ وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إِلَی بِنَائِهِ
کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں
ہناد بن سری، ابن ابی زائدہ، ابن ابی سلیمان، حضرت عطاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ ؓ کے زمانہ میں جس وقت کہ شام والوں نے مکہ والوں سے جنگ کی اور بیت اللہ جل گیا اور اس کے نتیجے میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا تو حضرت ابن زبیر ؓ نے بیت اللہ کو اسی حال میں چھوڑ دیا تاکہ حج کے موسم میں لوگ آئیں حضرت ابن زبیر ؓ چاہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو شام والوں کے خلاف ابھاریں اور انہیں برانگیختہ کریں جب وہ لوگ واپس ہونے لگے تو حضرت زبیر نے فرمایا اے لوگو! مجھے کعبۃ اللہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے توڑ کر دوبارہ بناوں یا اس کی مرمت وغیرہ کروا دوں حضرت ابن عباس ؓ فرمانے لگے کہ میری یہ رائے ہے کہ اس کا جو حصہ خراب ہوگیا اس کو درست کروا لیا جائے باقی بیت اللہ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جس طرح کہ لوگوں کے زمانہ میں تھا اور انہی پتھروں کو باقی رہنے دو کہ جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی ﷺ کو مبعوث کیا گیا تو حضرت ابن زبیر ؓ فرمانے لگے کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ خوش نہیں ہوگا جب تک کہ اسے نیا نہ بنالے تو اپنے رب کے گھر کو کیوں نہ بنایا جائے؟ میں تین مرتبہ استخارہ کروں گا پھر اس کام پر پختہ عزم کروں گا جب انہوں نے تین مرتبہ استخارہ کرلیا تو انہوں نے اسے توڑنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جو آدمی سب سے پہلے بیت اللہ کو توڑنے کے لئے اس پر چڑھے گا تو اس پر آسمان سے کوئی چیز بلا نازل نہ ہوجائے تو ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس نے اس میں سے ایک پتھر گرایا تو جب لوگوں نے اس پر دیکھا کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو سب لوگوں نے اسے مل کو توڑ ڈالا یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کردیا حضرت ابن زبیر ؓ نے چند ستون کھڑے کر کے اس پر پردے ڈال دئیے یہاں تک کہ اس کی دیواریں بلند ہوگئیں اور حضرت ابن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں نے کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا اور میرے پاس اس کی تعمیر کا خرچہ بھی نہیں ہے اگر میں دوبارہ بناتا تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں داخل کردیتا اور اس میں ایک دروازہ ایسا بناتا کہ جس سے لوگ باہر نکلیں حضرت ابن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ آج میرے پاس اس کا خرچہ بھی موجود ہے اور مجھے لوگوں کا ڈر بھی نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں زیادہ کردی یہاں تک کہ اس جگہ سے اس کی بنیاد ظاہر ہوئی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) والی بنیاد جسے لوگوں نے دیکھا حضرت ابن زبیرنے اس بنیاد پر دیوار کی تعمیر شروع کرادی اس طرح بیت اللہ لمبائی میں اٹھارہ ہاتھ ہوگیا جب اس میں زیادتی کی تو اس کا طول کم معلوم ہونے لگا پھر اس کے طول میں دس ہاتھ زیادتی کی اور اس کے دو دروازے بنائے کہ ایک دروازہ سے داخل ہوں اور دوسرے دروازے سے باہر نکلا جائے تو جب حضرت زبیر ؓ شہید کر دئیے گئے تو حجاج نے جواباً عبدالملک بن مروان کو اس کی خبر دی اور لکھا کہ حضرت ابن زبیر ؓ نے کعبۃ اللہ کی جو تعمیر کی ہے وہ ان بنیادوں کے مطابق ہے جنہیں مکہ کے ب اعتماد لوگوں نے دیکھا ہے تو عبدالملک نے جوابًا حجاج کو لکھا کہ ہمیں حضرت ابن زبیر ؓ کے رد وبدل سے کوئی غرض نہیں انہوں نے طول میں جو اضافہ کیا ہے اور حطیم سے جو زائد جگہ بیت اللہ میں داخل کی ہے اسے واپس نکال دو اور اسے پہلی طرح دوبارہ بنادو اور جو دروازہ انہوں نے کھولا ہے اسے بھی بند کردو پھر حجاج نے بیت اللہ کو گرا کر دوبارہ پہلے کی طرح اسے بنادیا۔
Top