صحیح مسلم - حج کا بیان - حدیث نمبر 3336
حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ وُهَيْبٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي إِسْحَقَ أَنَّهُ حَدَّثَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَی الْمَهْرِيِّ أَنَّهُ أَصَابَهُمْ بِالْمَدِينَةِ جَهْدٌ وَشِدَّةٌ وَأَنَّهُ أَتَی أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَقَالَ لَهُ إِنِّي کَثِيرُ الْعِيَالِ وَقَدْ أَصَابَتْنَا شِدَّةٌ فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْقُلَ عِيَالِي إِلَی بَعْضِ الرِّيفِ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ لَا تَفْعَلْ الْزَمْ الْمَدِينَةَ فَإِنَّا خَرَجْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَظُنُّ أَنَّهُ قَالَ حَتَّی قَدِمْنَا عُسْفَانَ فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ فَقَالَ النَّاسُ وَاللَّهِ مَا نَحْنُ هَا هُنَا فِي شَيْئٍ وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِکُمْ مَا أَدْرِي کَيْفَ قَالَ وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ أَوْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ إِنْ شِئْتُمْ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَ لَآمُرَنَّ بِنَاقَتِي تُرْحَلُ ثُمَّ لَا أَحُلُّ لَهَا عُقْدَةً حَتَّی أَقْدَمَ الْمَدِينَةَ وَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَکَّةَ فَجَعَلَهَا حَرَمًا وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ وَلَا تُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَکَةِ بَرَکَتَيْنِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ الْمَدِينَةِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَکَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّی تَقْدَمُوا إِلَيْهَا ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ ارْتَحِلُوا فَارْتَحَلْنَا فَأَقْبَلْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ فَوَالَّذِي نَحْلِفُ بِهِ أَوْ يُحْلَفُ بِهِ الشَّکُّ مِنْ حَمَّادٍ مَا وَضَعْنَا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّی أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ وَمَا يَهِيجُهُمْ قَبْلَ ذَلِکَ شَيْئٌ
مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں
حماد بن اسماعیل بن علیۃ، وہیب، یحییٰ بن ابی اسحاق، حضرت ابوسعید ؓ مولیٰ مہری سے روایت ہے جب مدینہ کے لوگ قحط سالی اور تنگی میں مبتلا ہوئے تو وہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ میرے بچے بہت زیادہ ہیں اور تنگی میں مبتلا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے بچوں کو کسی خوشحال جگہ کی طرف لے جاؤں تو حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرنا اور مدینہ میں رہنا کیونکہ ہم ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ نکلے تھے تو راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ عسفان کے مقام پر آئے تو آپ ﷺ نے اس مقام پر کچھ راتیں قیام فرمایا تو لوگ کہنے لگے اللہ کی قسم یہاں ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے اور پیچھے ہمارے بچوں کی نگرانی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے اور ہم ان کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں تو یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری یہ کس طرح کی باتیں مجھ تک پہنچی ہیں؟ راوی کہتے ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے کس طرح فرمایا اور اس کے ساتھ آپ ﷺ نے حلف اٹھایا یا فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں اپنی اونٹنی پر زین کسنے کا حکم کروں اور جب تک مدینہ نہ پہنچ جاؤں اس کی گرہ نہ کھولوں پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور میں مدینہ کو حرم بناتا ہوں مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کا حصہ حرم ہے اس حرم میں خون نہ بہایا جائے اور نہ اس میں جنگ کے لئے ہتھیار اٹھائے جائیں اور نہ ہی یہاں کے درختوں کے پتے توڑے جائیں سوائے جانوروں کے چارہ کے۔ اے اللہ ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اے اللہ ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اے اللہ ہمارے مد میں برکت عطا فرما اے اللہ ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اے اللہ مدینہ میں مکہ کی بنسبت دو گنا برکت فرما اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کہ مدینہ کی ہر گھاٹی اور درہ پر دو فرشتے مقرر ہیں اور تمہارے واپس آنے تک اس کی حفاظت کرتے ہیں پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب نکلو پھر ہم چلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے قسم ہے اس ذات کی کہ جس کی ہم قسم کھاتے ہیں کہ ابھی ہم نے مدینہ میں داخل ہو کر سامان نہیں اتارا تھا کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کردیا حالانکہ اس سے قبل ان میں کسی طرح کی کوئی بےچینی نہیں پائی جاتی تھی۔
Top