صحیح مسلم - روزوں کا بیان - حدیث نمبر 2746
و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی التَّمِيمِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا عَنْ حَمَّادٍ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَجُلٌ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ کَيْفَ تَصُومُ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ قَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْکَلَامَ حَتَّی سَکَنَ غَضَبُهُ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ کُلَّهُ قَالَ لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ قَالَ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ قَالَ کَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ وَيُطِيقُ ذَلِکَ أَحَدٌ قَالَ کَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ ذَاکَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ کَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ قَالَ وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِکَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانُ إِلَی رَمَضَانَ فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ کُلِّهِ صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَائَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ
ہر مہینے تین دن کے روزے اور ایام عرفہ کا ایک روزہ اور عاشورہ اور سوموار اور جمعرات کے دن کے روزے کے استحباب کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، حماد، حماد بن زید، غیلان، عبداللہ بن معبد زمانی، حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ آپ ﷺ روزے کیسے رکھتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ اس کی بات سے غصہ میں آگئے (یعنی اس لئے کہ یہ سوال بےموقع تها۔ اس کو لازم تها کہ یوں پوچهتا کہ میں روزے کیسے رکهوں؟ ) اور جب حضرت عمر ؓ نے آپ کو غصہ کی حالت میں دیکھا تو کہنے لگے (رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ ) ہم اللہ تعالیٰ تعالیٰ سے اس کو رب مانتے ہوئے اور اسلام کو دین مانتے ہوئے اور محمد ﷺ کو نبی مانتے ہوئے راضی ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے اور اس کے رسول ﷺ کے غضب سے حضرت عمر ؓ اپنے اس کلام کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو آدمی ساری ساری عمر روزے رکھے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ اس نے افطار کیا حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ جو آدمی دو دن روزے رکھے اور ایک دن افطار کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ کون ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ جو آدمی ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ جو آدمی ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی پھر آپ ﷺ نے فرمایا ہر مہینے تین دن روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا پورے ایک زمانہ کے روزے کے برابر ہے اور عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ یہ ایک سال پہلے کے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ یہ ایک روزہ اس کے ایک سال پہلے کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
Top