صحیح مسلم - فضائل کا بیان - حدیث نمبر 6163
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَکِّيُّ کُلُّهُمْ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ هُوَ مُوسَی صَاحِبَ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَامَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ قَالَ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ مُوسَی أَيْ رَبِّ کَيْفَ لِي بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَحَمَلَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حُوتًا فِي مِکْتَلٍ وَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِکْتَلِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ الْمِکْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَائِ حَتَّی کَانَ مِثْلَ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنَسِيَ صَاحِبُ مُوسَی أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَی رَجُلًا مُسَجًّی عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ أَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِنَّکَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَی يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ إِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ يَقُولُ مَائِلٌ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَکَذَا فَأَقَامَهُ قَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَتَخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوَدِدْتُ أَنَّهُ کَانَ صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا قَالَ وَجَائَ عُصْفُورٌ حَتَّی وَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَکَانَ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَکَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا
خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں
عمرو بن محمد ناقد اسحاق بن ابراہیم، عبیداللہ بن سعید محمد بن ابی عمر مکی، ابن عیینہ ابن عمر سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کا گمان ہے کہ بنی اسرائیل والے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے حضرت موسیٰ اور تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہو کر بنی اسرائیل کو خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں آپ نے فرمایا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف علم کو نہیں لوٹایا یعنی اللہ کا علم سب سے زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی کہ مجمع البحرین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے کہ جو تجھ سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں تیرے اس بندہ تک کیسے پہنچوں گا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا گیا اپنے تھیلے میں ایک مچھلی رکھو جس جگہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی تو وہی وہ جگہ کہ جہاں میرا وہ بندہ ہوگا جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) پھر حضرت موسیٰ چل پڑے اور حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ چل پڑے دونوں حضرات چلتے چلتے ایک چٹان کے پاس آگئے حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع (علیہم السلام) دونوں حضرات سو گئے تھیلے میں مچھلی تڑپی اور تھیلی میں سے باہر نکل کر سمندر میں جا گری اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی خاطر پانی کے بہنے کو روک دیا یہاں تک کہ مچھلی کے لئے پانی میں مخروطی کی طرح ایک سرنگ بنتی چلی گئی اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہما السلام دونوں حضرات کے لئے یہ ایک حیران کن منظر تھا تو باقی سارا دن اور ساری رات وہ دونوں چلتے رہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی ان کو یہ بتانا بھول گئے تو جب صبح ہوئی اور حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے تو ہمیں تھکا دیا ہے اور تھکاوٹ اس وقت سے شروع ہوئی جب اس جگہ سے آگے نکل گئے جس جگہ جانے کا حکم دیا گیا تھا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ ایک چٹان تک آئے تو اور شیطان ہی نے تو ہمیں مچھلی کا ذکر کرنے سے بھلا دیا اور بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہم اسی جگہ کی تلاش میں تو تھے پھر وہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات پر واپس ہوئے پھر یہاں تک کہ وہ اس صخرہ چٹان پر آگئے اس جگہ ایک آدمی کو اپنے اوپر کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا حضرت موسیٰ نے ان پر سلام کیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے فرمایا ہمارے علاقے میں سلام کہاں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا جی ہاں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اے موسیٰ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ علم دیا ہے کہ جسے میں نہیں جانتا اور مجھے وہ عطا فرمایا ہے کہ جسے آپ نہیں جانتے حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے اور تمہیں اس بات پر کس طرح صبر ہو سکے گا کہ جس کا تمہیں علم نہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے فرمایا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی وہ بات آپ سے بیان نہ کر دوں حضرت موسیٰ نے فرمایا اچھا چناچہ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ان دونوں حضرات کے سامنے سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ہمیں اپنی کشتی پر سوار کرلے کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا تو انہوں نے ان دونوں حضرات کو بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کرلیا تو حضرت خضر نے اس کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کو اکھاڑ پھینکا حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے فرمایا ان کشتی والوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے تاکہ کشتی والوں کو غرق کردیا جائے یہ تو نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس چیز کو بھی میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میری پکڑ نہ کریں اور نہ ہی میرے معاملہ میں کوئی سختی کریں پھر دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور سمندر کے ساحل پر چلنے لگے تو انہوں نے ایک لڑکے کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا حضرت خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کا سر تن سے جدا کردیا حضرت موسیٰ پھر بول پڑے کہ آپ نے ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کردیا آپ نے بڑا نازیبا کام کیا حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے نبی ﷺ نے فرمایا حضرت خضر (علیہ السلام) کا یہ انداز پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اب میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں تک آئے انہوں نے ان گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کو مہمان رکھنے سے انکار کردیا ان دونوں حضرات نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر نے کے قریب تھی تو اس دیوار کو سیدھا کردیا وہ دیوار جھکی ہوئی تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس دیوار کو سید ھا کردیا حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس ہم گئے تھے لیکن انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اور ہمیں کھانا نہیں کھلایا اگر آپ چاہیں تو ان سے اس دیوار کو سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا بیان بتاتا ہوں کہ جس پر آپ صبر نہیں کرسکے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے کاش کہ وہ صبر کرتے یہاں تک کہ اللہ ہمیں ان دونوں حضرات کے مزید واقعات بیان فرماتا اور رسول ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ کا پہلی مرتبہ سوال کرنا بھول تھا آپ نے فرمایا ایک چڑیا آئی یہاں تک کہ وہ کشتی کے کنارے بیٹھ گئی پھر اس چڑیا نے اپنی چونچ سمندر میں ڈالی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ میرے اور تیرے علم سے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی بھی نہیں کی جتنی اس چڑیا نے سمندر میں کی ہے سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ ابن عباس ؓ پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح کشتی کو چھین لیتا تھا اور وہ یہ بھی پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا
Top