صحیح مسلم - فضائل کا بیان - حدیث نمبر 6165
حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَکِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ إِذْ قَالَ مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا وَأَعْلَمَ مِنِّي قَالَ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ قَالَ فَقِيلَ لَهُ تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ قَالَ فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّی انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَعُمِّيَ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ وَتَرَکَ فَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَائِ فَجَعَلَ لَا يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ صَارَ مِثْلَ الْکُوَّةِ قَالَ فَقَالَ فَتَاهُ أَلَا أَلْحَقُ نَبِيَّ اللَّهِ فَأُخْبِرَهُ قَالَ فَنُسِّيَ فَلَمَّا تَجَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّی تَجَاوَزَا قَالَ فَتَذَکَّرَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا فَأَرَاهُ مَکَانَ الْحُوتِ قَالَ هَا هُنَا وُصِفَ لِي قَالَ فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ مُسَجًّی ثَوْبًا مُسْتَلْقِيًا عَلَی الْقَفَا أَوْ قَالَ عَلَی حَلَاوَةِ الْقَفَا قَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَکَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ قَالَ وَعَلَيْکُمْ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ وَمَنْ مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ مَجِيئٌ مَا جَائَ بِکَ قَالَ جِئْتُ لِ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا شَيْئٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا رَکِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ انْتَحَی عَلَيْهَا قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا لَقِيَا غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ قَالَ فَانْطَلَقَ إِلَی أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْيِ فَقَتَلَهُ فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام ذَعْرَةً مُنْکَرَةً قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذَا الْمَکَانِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَی مُوسَی لَوْلَا أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَی الْعَجَبَ وَلَکِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَی الْعَجَبَ قَالَ وَکَانَ إِذَا ذَکَرَ أَحَدًا مِنْ الْأَنْبِيَائِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَی أَخِي کَذَا رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ قَالَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا أَمَّا السَّفِينَةُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَإِذَا جَائَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَکَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَکُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَکَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا وَأَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَکَانَ تَحْتَهُ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ
خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں
حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے لوگوں سامنے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی آزمائشوں کے بارے میں نصیحتیں فرما رہے تھے اور انہوں نے فرمایا میرے علم میں نہیں ہے کہ ساری دنیا میں کوئی آدمی مجھ سے بہتر ہو یا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں کہ جو تجھ سے بہتر ہے یا تجھ سے زیادہ علم والا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار مجھے اس آدمی سے ملا دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ ایک مچھلی کو نمک لگا کر اپنے توشہ میں رکھ جس جگہ وہ مچھلی گم ہوجائے اس جگہ پر وہ آدمی تمہیں مل جائے گا حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی یہ سن کر چل پڑے یہاں تک کہ صخرہ کے مقام پر پہنچ گئے اس جگہ کوئی آدمی نہ ملا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا میں اللہ کے نبی سے ملوں اور ان کو اس کی خبر دوں پھر وہ حضرت موسیٰ سے اس واقعہ کا ذکر بھول گئے تو جب ذرا آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے ہمیں تھکا دیا ہے اور حضرت موسیٰ کو یہ تھکاوٹ اس جگہ سے آگے بڑھنے سے ہوئی حضرت موسیٰ کے ساتھی نے یاد کیا اور کہنے لگا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ کے مقام پر پہنچے تو میں مچھلی کو بھول گیا اور سوائے شیطان کے یہ مجھے کسی نے نہیں بھلایا بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے وہ جگہ بتادی جس جگہ مچھلی گم ہوگئی تھی اس جگہ پر حضرت موسیٰ تلاش کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ نے اس جگہ حضرت خضر (علیہ السلام) کو دیکھ لیا کہ یہ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے چت لیٹے ہوئے ہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا السلام علیکم! حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا وعلیکم السلام! آپ کون؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کون موسیٰ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیسے آنا ہوا؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! اپنے علم میں سے کچھ مجھے بھی دکھا دو حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہ ہو تو تم ان پر کیسے صبر کرسکو گے تو اگر تم صبر نہ کرسکو گے تو مجھے بتادو کہ میں اس وقت کیا کروں حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صبر کرنے والا ہی پاؤ گے اور میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تم نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی تمہیں اس کے بارے میں بتا نہ دوں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کشتی کا تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ بول پڑھے کہ آپ نے کشتی کو توڑ دیا تاکہ اس کشتی والے غرق ہوجائیں آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اے موسیٰ! کیا میں تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میرا مؤ اخذہ نہ کریں اور مجھے تنگی میں نہ ڈالیں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ پر آگئے کہ جہاں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) نے بغیر سوچے سمجھے ان لڑکوں میں سے ایک لڑکے کو پکڑا اور سے قتل کردیا حضرت موسیٰ یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور فرمایا آپ نے ایک بےگنا لڑکے کو قتل کردیا یہ کام تو آپ نے بڑی ہی نازیبا کیا ہے رسول ﷺ نے اس مقام پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اور حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے اگر موسیٰ جلدی نہ کرتے تو بہت ہی عجیب عجیب باتیں ہم دیکھتے لیکن حضرت موسیٰ کو حضرت خضر سے شرم آگئی اور فرمایا اگر اب میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو آپ میرا ساتھ چھوڑ دیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے اور اگر حضرت موسیٰ صبر کرتے تو عجیب باتیں دیکھتے اور آپ جب بھی انبیاء (علیہ السلام) میں سے کسی کو یاد فرماتے تو فرماتے کہ ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور میرے فلاں بھائی پر اللہ کی رحمت ہو پھر وہ دونوں حضرات (حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے اس گاؤں کے لوگ بڑے کنجوس تھے یہ دونوں حضرات سب مجلسوں میں گھومے اور کھانا طلب کیا لیکن ان گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی ان دونوں حضرات کی مہمان نوازی نہیں کی پھر انہوں نے وہاں ایک ایسی دیوار کو پایا کہ جو گرنے کے قریب تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس دیوار کو سیدھا کھڑا کردیا حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اس دیوار کے سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیتے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بس اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اور حضرت خضر (علیہ السلام) حضرت موسیٰ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا کہ میں اب آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں کہ جن پر تم صبر نہ کرسکے کشتی تو ان مسکینوں کی تھی کہ جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ظلما کشتیوں کو چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کشتی کو عیب دار کر دوں تو جب کشتی چھیننے والا آیا تو اس نے کشتی کو عیب دار سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کشتی آگے بڑھ گئی اور کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا کر اسے درست کرلیا اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا ہے فطرةً کافر تھا اس کے ماں باپ اس سے بڑا پیار کرتے تھے تو جب وہ بڑا ہوا تو وہ اپنے ماں باپ کو بھی سرکشی میں پھنسا دیتا تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لڑکے کے بدلہ میں دوسرا لڑکا عطا فرما دے جو کہ اس سے بہتر ہو اور وہ دیوار جسے میں نے درست کیا وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے خزانہ تھا آخر آیت تک
Top