صحیح مسلم - فضائل کا بیان - حدیث نمبر 6305
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ کِلَاهُمَا عَنْ عِيسَی وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ جَلَسَ إِحْدَی عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَکْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا قَالَتْ الْأُولَی زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ عَلَی رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ لَا سَهْلٌ فَيُرْتَقَی وَلَا سَمِينٌ فَيُنْتَقَلَ قَالَتْ الثَّانِيَةُ زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا أَذَرَهُ إِنْ أَذْکُرْهُ أَذْکُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتْ الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَإِنْ أَسْکُتْ أُعَلَّقْ قَالَتْ الرَّابِعَةُ زَوْجِي کَلَيْلِ تِهَامَةَ لَا حَرَّ وَلَا قُرَّ وَلَا مَخَافَةَ وَلَا سَآمَةَ قَالَتْ الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتْ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَکَلَ لَفَّ وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَإِنْ اضْطَجَعَ الْتَفَّ وَلَا يُولِجُ الْکَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتْ السَّابِعَةُ زَوْجِي غَيَايَائُ أَوْ عَيَايَائُ طَبَاقَائُ کُلُّ دَائٍ لَهُ دَائٌ شَجَّکِ أَوْ فَلَّکِ أَوْ جَمَعَ کُلًّا لَکِ قَالَتْ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ وَالْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ قَالَتْ التَّاسِعَةُ زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنْ النَّادِي قَالَتْ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِکٌ وَمَا مَالِکٌ مَالِکٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِکَ لَهُ إِبِلٌ کَثِيرَاتُ الْمَبَارِکِ قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِکُ قَالَتْ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ فَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُکُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجَعُهُ کَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا وَمِلْئُ کِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا کَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَکَحَهَا فَنَکَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا رَکِبَ شَرِيًّا وَأَخَذَ خَطِّيًّا وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ کُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا قَالَ کُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَکِ فَلَوْ جَمَعْتُ کُلَّ شَيْئٍ أَعْطَانِي مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُنْتُ لَکِ کَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ
حدیث ام زرع کے ذکر کے بیان میں
علی بن حجر سعد احمد بن حباب عیسیٰ ابن حجر عیسیٰ بن یونس، ہشام بن عروہ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ گیارہ عورتیں آپس میں یہ معاہدہ کر کے بیٹھیں کہ اپنے اپنے خاوندوں کا پورا پورا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپائیں ان میں سے پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند ناکارہ پتلے دبلے اونٹ کی طرح ہے اور گوشت بھی سخت دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پہ رکھا ہوا ہو کہ نہ تو پہاڑ کا راستہ آسان ہو کہ جس کی وجہ سے اس پر چڑھنا ممکن ہو اور نہ ہی وہ گوشت ایسا ہو کہ بڑی دقت اٹھا کر اسے اتارنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری عورت نے کہا میں اپنے خاوند کی کیا خبر بیان کروں مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر میں اس کے عیب ذکر کرنا شروع کر دوں تو کسی عیب کا ذکر نہ چھوڑوں (یعنی سارے ہی عیب بیان کردوں) اور اگر ذکر کروں تو اس کے ظاہری اور باطنی سارے عیب ذکر کر ڈالوں۔ تیسری عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند لم ڈھینگ اگر میں کسی بات میں بول پڑوں تو مجھے طلاق ہوجائے اور اگر خاموش رہوں تو لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح ہے نہ گرم نہ سرد نہ اس سے کسی قسم کا ڈر اور رنج۔ پانچویں عورت نے کہا میرا خاوند جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ چیتا بن جاتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر بن جاتا ہے اور گھر میں جو کچھ ہوتا ہے اور اس بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ہڑپ کرجاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو سب چڑھا جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو اکیلا ہی کپڑے میں لیٹ جاتا ہے میری طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا تاکہ میری پراگندی کا علم ہو۔ ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند ہمبستری سے عاجز نامرد اور اس قدر بیوقوف ہے کہ وہ بات بھی نہیں کرسکتا دنیا کی ہر بیماری اس میں ہے اور سخت مزاج ایسا کہ میرا سر پھوڑ دے یا میرا جسم زخمی کر دے یا دونوں کر ڈالے۔ آٹھویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند خوشبو میں زعفران کی طرح مہکتا ہے اور چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے۔ نویں عورت نے کہا میرا خاوند بلند شان والا دراز قد والا بڑا ہی مہمان نواز اس کا گھر مجلس اور دارالمشور کے قریب ہے۔ دسویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند مالک ہے اور میں مالک کی کیا شان بیان کروں کہ اس کے اونٹ اس قدر زیادہ ہیں جو مکان کے قریب بٹھائے جاتے ہیں چراگاہ میں کم ہی چرتے ہیں وہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ ہلاکت کا وقت قریب آگیا ہے۔ گیارہویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند ابوزرع ہے میں ابوزرع کی کیا شان بیان کروں کہ زیوروں سے اس نے میرے کان جھکا دئے اور چربی سے میرے بازو بھر دئیے اور مجھے ایسا خوش رکھتا ہے کہ خود پسندی میں میں اپنے آپ کو بھولنے لگی مجھے اس نے ایک ایسے غریب گھرانے میں پایا تھا کہ جو بڑی مشکل سے بکریوں پر گزر اوقات کرتے تھے اور پھر مجھے اپنے خوشحال گھرانے میں لے آیا کہ جہاں گھوڑے اونٹ کھیتی باڑی کے بیل اور کسان موجود تھے اور وہ مجھے کسی بات پر نہیں ڈانٹتا تھا میں دن چڑھے تک سوتی رہتی اور کوئی مجھے جگا نہیں سکتا تھا اور کھانے پینے میں اس قدر فراخی کہ میں خوب سیر ہو کر چھوڑ دیتی ابوزرع کی ماں بھلا اس کی کیا تعریف کروں اس کے بڑے بڑے برتن ہر وقت بھرے کے بھرے رہتے ہیں اس کا گھر بڑا کشادہ ہے اور ابوزرع کا بیٹا بھلا اس کے کیا کہنے کہ وہ کبھی ایسا دبلا پتلا چھریرے جسم والا کہ اس کے سونے کی جگہ (خواب گاہ) نرم و نازک جیسے تلوار کی میان، بکری کے بچے کی ایک دست اس کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ابوزرع کی بیٹی کہ اس کو کیا کہنے کہ وہ اپنی ماں کی تابعدار باپ کی فرمانبردار موٹی تازی سوکن کی جلن تھی ابوزرع کی باندی کا بھی کیا کمال بیان کروں کہ گھر کی بات وہ کبھی باہر جا کر نہیں کہتی تھی کھانے کی چیز میں بغیر اجازت کے خرچ نہیں کرتی تھی اور گھر میں کوڑا کرکٹ جمع نہیں ہونے دیتی تھی بلکہ گھر صاف ستھرا رکھتی تھی ایک دن صبح جبکہ دودھ کے برتن بلوائے جا رہے تھے ابوزرع گھر سے نکلے راستے میں ایک عورت پڑی ہوئی ملی جس کی کمر کے نیچے چیتے کی طرح دو بچے دو اناروں (یعنی اس کے پستانوں) سے کھیل رہے تھے پس وہ عورت اسے کچھ ایسی پسند آگئی کہ اس نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت سے نکاح کرلیا پھر میں نے بھی ایک شریف سردار سے نکاح کرلیا جو کہ شہسوار ہے اور سپہ سالار ہے اس نے مجھے بہت سی نعمتوں سے نوزا اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا اس نے مجھے دیا اور یہ بھی اس نے کہا کہ اے ام زرع خود بھی کھا اور اپنے میکے میں بھی جو کچھ چاہے بھیج دے لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی ساری عطاؤں کو اکٹھا کرلوں تو پھر بھی وہ ابوزرع کی چھوٹی سے چھوٹی عطا کے برابر نہیں ہوسکتی سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سارا قصہ سنا کر) مجھ سے فرمایا: (اے عائشہ! ) میں بھی تیرے لئے اسی طرح سے ہوں جسطرح کہ ابوزرع ام زرع کے لئے ہے۔
Top