صحیح مسلم - فضائل کا بیان - حدیث نمبر 6359
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ وَکَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَی خَالٍ لَنَا فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا إِنَّکَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِکَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ فَجَائَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقُلْتُ أَمَّا مَا مَضَی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَهُ وَلَا جِمَاعَ لَکَ فِيمَا بَعْدُ فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّی خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْکِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَکَّةَ فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْکَاهِنَ فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا مَعَهَا قَالَ وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ قُلْتُ لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ قُلْتُ فَأَيْنَ تَوَجَّهُ قَالَ أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي أُصَلِّي عِشَائً حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ کَأَنِّي خِفَائٌ حَتَّی تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ فَقَالَ أُنَيْسٌ إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَکَّةَ فَاکْفِنِي فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّی أَتَی مَکَّةَ فَرَاثَ عَلَيَّ ثُمَّ جَائَ فَقُلْتُ مَا صَنَعْتَ قَالَ لَقِيتُ رَجُلًا بِمَکَّةَ عَلَی دِينِکَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ قُلْتُ فَمَا يَقُولُ النَّاسُ قَالَ يَقُولُونَ شَاعِرٌ کَاهِنٌ سَاحِرٌ وَکَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَائِ قَالَ أُنَيْسٌ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْکَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَی لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي أَنَّهُ شِعْرٌ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ قَالَ قُلْتُ فَاکْفِنِي حَتَّی أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ قَالَ فَأَتَيْتُ مَکَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ فَقُلْتُ أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ الصَّابِئَ فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِکُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّی خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ قَالَ فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ کَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ قَالَ فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَائَ وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ مَا کَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِي وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ فَبَيْنَا أَهْلِ مَکَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَائَ إِضْحِيَانَ إِذْ ضُرِبَ عَلَی أَسْمِخَتِهِمْ فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَةَ قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ أَنْکِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَی قَالَ فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَکْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ وَتَقُولَانِ لَوْ کَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ قَالَ مَا لَکُمَا قَالَتَا الصَّابِئُ بَيْنَ الْکَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا قَالَ مَا قَالَ لَکُمَا قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا کَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ ثُمَّ صَلَّی فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَهُ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَکُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ قَالَ فَقُلْتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ وَعَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ أَنْتَ قَالَ قُلْتُ مِنْ غِفَارٍ قَالَ فَأَهْوَی بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَی جَبْهَتِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي کَرِهَ أَنْ انْتَمَيْتُ إِلَی غِفَارٍ فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ وَکَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ مَتَی کُنْتَ هَاهُنَا قَالَ قُلْتُ قَدْ کُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ قَالَ فَمَنْ کَانَ يُطْعِمُکَ قَالَ قُلْتُ مَا کَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِي وَمَا أَجِدُ عَلَی کَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ إِنَّهَا مُبَارَکَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا فَفَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ وَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَکَلْتُهُ بِهَا ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَکَ عَسَی اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِکَ وَيَأْجُرَکَ فِيهِمْ فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ قَالَ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِکَ فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا فَقَالَتْ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِکُمَا فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَاحْتَمَلْنَا حَتَّی أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ وَکَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَائُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَکَانَ سَيِّدَهُمْ وَقَالَ نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ الْبَاقِي وَجَائَتْ أَسْلَمُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ
ابوذر ؓ کے فضائل کے بیان میں
ہداب بن خالد ازدی سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال عبداللہ بن صامت حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے اور وہ حرمت والے مہینے کو بھی حلال جانتے تھے پس میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری والدہ نکلے پس ہم اپنے ماموں کے ہاں اترے پس ہمارے ماموں نے اعزازو اکرام کیا اور خوب خاطر مدارت کی جس کی وجہ سے ان کی قوم نے ہم پر حسد کیا تو انہوں نے کہا (ماموں سے) کہ جب تو اپنے اہل سے نکل کرجاتا ہے تو انیس ان سے بدکاری کرتا ہے پس ہمارے ماموں آئے اور انہیں جو کچھ کہا گیا تھا وہ الزام ہم پر لگا میں نے کہا تو نے ہمارے ساتھ جو احسان و نیکی کی تھی اسے تو نے اس الزام کے وجہ سے خراب کردیا ہے پس اب اس کے بعد ہمارا آپ سے تعلق اور نبھاؤ نہیں ہوسکتا پس ہم اپنے اونٹوں کے قریب آئے اور ان پر اپنا سامان سوار کیا اور ہمارے ماموں نے کپڑا ڈال کر رونا شروع کردیا پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچے پس انیس نے ہمارے اونٹوں اور اتنے ہی اور اونٹوں پر شرط لگائی (شاعری میں) کہ کس کے اونٹ عمدہ ہیں پس وہ دونوں کاہن کے پاس گئے تو اس نے انہیں کے اونٹوں کو پسند کیا پس انیس ہمارے پاس ہمارے اونٹوں کو اور اتنے ہی اور اونٹوں کو لے کر آیا اور میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات سے تین سال پہلے ہی اے میرے بھیجتے نماز پڑھا کرتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کس کی رضا کے لئے انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھا انہوں نے کہا جہاں میرا رب رخ کردیتا اسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجاتا انیس نے کہا مجھے مکہ میں ایک کام ہے تو میرے معاملات کی دیکھ بھال کرنا پس انیس چلا یہاں تک کہ مکہ آیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو میں نے کہا تو نے کیا کیا اس نے کہا میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بنا کر) بھیجا ہے میں نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا لوگ اسے شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود شاعروں میں سے تھا انیس نے کہا میں کاہنوں کی باتیں سن چکا ہوں پس اس کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے اور تحقیق میں نے اس کے اقوال کا شعراء کے اشعار سے بھی موزانہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر بھی مناسب نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ جھوٹے ہیں میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں پس میں مکہ میں آیا اور ان میں سے ایک کمزور آدمی کو مل کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو؟ پس اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ دین بدلنے والا ہے پس وادی والوں میں سے ہر ایک سنتے ہی مجھ پر ڈھیلوں اور ہڈیوں کے ساتھ ٹوٹ پڑا یہاں تک کہ میں بےہوش ہو کر گرپڑا پس جب میں بےہوشی سے ہوش میں آ کر اٹھا تو میں گویا سرخ بت (خون میں لت پت) تھا میں زمزم کے پاس آیا اور اپنا خون دھویا پھر اس کا پانی پیا اور میں اے بھتیجے تین رات اور دن وہاں ٹھہرا رہا اور میرے لئے زمزم کے پانی کے سوا کوئی خوراک نہ تھی پس میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئیں اور نہ ہی میں نے اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی محسوس کی پس اس دوران ایک چاندنی رات میں جب اہل مکہ سو گئے اور اس وقت کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا تھا اور ان میں سے دو عورتیں اساف اور نائلہ (بتوں) کو پکار رہی تھیں پس وہ جب اپنے طواف کے دوران میری طرف آئیں تو میں نے کہا ان میں سے ایک (بت) کا دوسرے کے ساتھ نکاح کردو (اساف مرد اور نائلہ عورت تھی اور باعتقاد مشرکین مکہ کے مطابق یہ دونوں زنا کرتے وقت مسخ ہو کر بت ہوگئے تھے) لیکن وہ اپنی بات سے باز نہیں آئیں پس جب وہ میرے قریب آئیں تو میں نے بغیر کنایہ اور اشارہ کے فلاں کہہ دیا کہ فلاں کے (فرج میں) لکڑی۔ پس وہ چلاتی اور یہ کہتی ہوئی گئیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی موجود ہوتا راستہ میں انہیں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ پہاڑی سے اترتے ہوئے ملے آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک دین کو بدلنے والا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس نے کیا کہا ہے انہوں نے کہا اس نے ہمیں ایسی بات کہی ہے جو منہ کو بھر دیتی ہے پس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ حجر اسود کا بوسہ لیا اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز ادا کی حضرت ابوذر ؓ نے کہا میں وہ پہلا آدمی ہوں جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپ ﷺ کو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ پر سلام ہو آپ ﷺ نے فرمایا تو کون ہے؟ میں نے عرض کیا میں قبیلہ غفار سے ہوں آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ ﷺ کو میرا قبیلہ غفار سے ہونا ناپسند ہوا ہے پس میں آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ ﷺ کے ساتھی نے مجھے پکڑ لیا اور وہ مجھ سے زیادہ آپ ﷺ کے بارے میں واقفیت رکھتا تھا کہ آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا تو یہاں کب سے ہے میں نے عرض کیا میں یہاں تین دن رات سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کھانا کون کھلاتا ہے میں نے عرض کیا میرے لئے زمزم کے پانی کے علاوہ کوئی کھانا نہیں ہے پس اس سے موٹا ہوگیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بل مڑ گئے ہیں اور میں اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی بھی محسوس نہیں کرتا آپ ﷺ نے فرمایا یہ پانی بابرکت ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھی بھر دیتا ہے حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اس کے رات کے کھانے کی اجازت دے دیں پس رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ چلے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلا پس ابوبکر ؓ نے دروازہ کھولا اور میرے لئے طائف کی کشمش نکالنے لگے اور یہ میرا پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا پھر میں رہا جب تک رہا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے کھجوروں والی زمین دکھائی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ یثرب کے علاوہ کوئی اور علاقہ نہیں ہے کیا تو میری طرف سے اپنی قوم کو تبلیغ کرے گا عنقریب اللہ انہیں تیری وجہ سے فائدہ عطا کرے گا اور تمہیں ثواب عطا کیا جائے گا پھر میں انیس کے پاس آیا تو اس نے کہا تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا میں اسلام قبول کرچکا ہوں اور تصدیق کرچکا ہوں اس نے کہا مجھے بھی تجھ سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام قبول کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں پھر ہم اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے کہا مجھے تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں میں بھی اسلام قبول کرتی اور تصدیق کرتی ہوں پھر ہم نے اپنا سامان لادا اور اپنی قوم غفار کے پاس آئے تو ان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہوگئے اور ان کی امامت ان کے سرادر ایماء بن رحضہ انصاری کراتے تھے اور باقی آدھے لوگوں نے کہا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوجائیں گے پس جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو باقی آدھے لوگ بھی مسلمان ہوگئے اور قبیلہ اسلام کے لوگ بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم بھی اس بات پر اسلام قبول کرتے ہیں جس پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے ہیں پس وہ بھی مسلمان ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ غفار کو اللہ نے معاف فرما دیا اور قبیلہ کی اللہ نے حفاظت کی (قتل اور قید سے)
Top