صحیح مسلم - فضائل کا بیان - حدیث نمبر 6496
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُکْرَمٍ الْعَمِّيُّ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَقَ الْحَضْرَمِيَّ أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ عَنْ أَبِي نَوْفَلٍ رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَی عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّی مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَنْهَاکَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَنْهَاکَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَنْهَاکَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنْ کُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی أُمِّهِ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْکِ مَنْ يَسْحَبُکِ بِقُرُونِکِ قَالَ فَأَبَتْ وَقَالَتْ وَاللَّهِ لَا آتِيکَ حَتَّی تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ يَسْحَبُنِي بِقُرُونِي قَالَ فَقَالَ أَرُونِي سِبْتَيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّی دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ کَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ قَالَتْ رَأَيْتُکَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَأَفْسَدَ عَلَيْکَ آخِرَتَکَ بَلَغَنِي أَنَّکَ تَقُولُ لَهُ يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَامَ أَبِي بَکْرٍ مِنْ الدَّوَابِّ وَأَمَّا الْآخَرُ فَنِطَاقُ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ فِي ثَقِيفٍ کَذَّابًا وَمُبِيرًا فَأَمَّا الْکَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُکَ إِلَّا إِيَّاهُ قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَلَمْ يُرَاجِعْهَا
قبیلہ ثقیف کے کذاب اور اس کے ظالم کے ذکر کے بیان میں
عقبہ بن مکرم، یعقوب ابن اسحاق، حضرمی، اسود بن شیبان، عقبہ حضرت ابونوفل ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زیبر ؓ کو مدینہ کی ایک گھاٹی پر (سولی لٹکتے ہوئے) دیکھا۔ حضرت ابو نوفل ؓ کہتے ہیں کہ قریشی اور دوسرے لوگ بھی اس طرف سے گزرتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت ابن عمر ؓ اس طرف سے گزرے تو وہاں پر کھڑے ہو کر فرمایا اے ابوخبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اے ابو خبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اے ابو خبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے (یعنی خدمت سے) پہلے ہی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے پہلے ہی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں آپ کی طرح روزہ دار شب زندہ دار اور صلہ رحم کسی کو نہیں جانتا۔ اللہ کی قسم! (دشمن کی نظر میں) آپ کا جو گروہ برا تھا وہ بہت اچھا گروہ تھا۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ چلے آئے۔ حجاج کو حضرت عبداللہ ؓ کے یہاں کھڑے ہونے اور کلام کرنے کی اطلاع پہنچی تو حجاج نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی نعش اس گھاٹی سے اتروا کر یہود کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ پھر اس نے حضرت عبداللہ کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کی طرف آدمی بھیج کر ان کو بلوایا حضرت اسماء ؓ نے آنے سے انکار کردیا۔ حجاج نے دوبارہ بلوانے بھیجا اور کہنے لگے کہ اگر کوئی ہے تو (ٹھیک ہے) ورنہ میں تیری طرف ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا کہ جو تیرے بالوں کو کھنیچتا ہوا تجھے میرے پاس لے آئے گا۔ حضرت اسماء ؓ نے پھر انکار کردیا اور فرمانے لگیں اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہیں آؤں گی چاہے تو میری طرف ایسے آدمی کو بھیجے کہ وہ میرے بالوں کو کھینچتا ہوا لائے۔ راوی کہتے ہیں کہ بالآخر حجاج کہنے لگا کہ میری جوتیاں لاؤ وہ جوتیاں پہن کر اکڑتا ہوا حضرت اسماء کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کیا تو نے دیکھا ہے کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا ہے؟ حضرت اسماء نے فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ تو نے اس کی دنیا خراب کردی ہے اور اس نے تیری آخرت خراب کردی ہے۔ (حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں) مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو نے عبداللہ کو (طنزیہ انداز میں) دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہا ہے؟ اللہ کی قسم میں دو کمر بندوں والی ہوں۔ ایک کمر بند سے تو میں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کو کھانا (ہجرت کے موقع پر) باندھا تھا اور دوسرا کمر بند وہی تھا کہ جس کی عورت کو ضرورت ہوتی ہے اور (اے حجاج) سن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی (آپ ﷺ نے فرمایا) قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہوگا کہ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا (یعنی مختار بن ابی عبید ثقفی) اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔ راوی کہتے ہیں کہ حجاج (یہ سن کر) اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اسماء ؓ کو کوئی جواب نہیں دیا۔
Top