مسند امام احمد - ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 24631
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ وَيَحْيَى قَالَا لَمَّا هَلَكَتْ خَدِيجَةُ جَاءَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَزَوَّجُ قَالَ مَنْ قَالَتْ إِنْ شِئْتَ بِكْرًا وَإِنْ شِئْتَ ثَيِّبًا قَالَ فَمَنْ الْبِكْرُ قَالَتْ ابْنَةُ أَحَبِّ خَلْقِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْكَ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ وَمَنْ الثَّيِّبُ قَالَتْ سَوْدَةُ ابْنَةُ زَمْعَةَ قَدْ آمَنَتْ بِكَ وَاتَّبَعَتْكَ عَلَى مَا تَقُولُ قَالَ فَاذْهَبِي فَاذْكُرِيهِمَا عَلَيَّ فَدَخَلَتْ بَيْتَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ يَا أُمَّ رُومَانَ مَاذَا أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ مِنْ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ قَالَتْ وَمَا ذَاكَ قَالَتْ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُ عَلَيْهِ عَائِشَةَ قَالَتْ انْتَظِرِي أَبَا بَكْرٍ حَتَّى يَأْتِيَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَتْ يَا أَبَا بَكْرٍ مَاذَا أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مِنْ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ قَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَتْ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُ عَلَيْهِ عَائِشَةَ قَالَ وَهَلْ تَصْلُحُ لَهُ إِنَّمَا هِيَ ابْنَةُ أَخِيهِ فَرَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ قَالَ ارْجِعِي إِلَيْهِ فَقُولِي لَهُ أَنَا أَخُوكَ وَأَنْتَ أَخِي فِي الْإِسْلَامِ وَابْنَتُكَ تَصْلُحُ لِي فَرَجَعَتْ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ قَالَ انْتَظِرِي وَخَرَجَ قَالَتْ أُمُّ رُومَانَ إِنَّ مُطْعِمَ بْنَ عَدِيٍّ قَدْ كَانَ ذَكَرَهَا عَلَى ابْنِهِ فَوَاللَّهِ مَا وَعَدَ مَوْعِدًا قَطُّ فَأَخْلَفَهُ لِأَبِي بَكْرٍ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى مُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ وَعِنْدَهُ امْرَأَتُهُ أُمُّ الْفَتَى فَقَالَتْ يَا ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ لَعَلَّكَ مُصْبٍ صَاحِبَنَا مُدْخِلُهُ فِي دِينِكَ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ إِنْ تَزَوَّجَ إِلَيْكَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ آقَوْلَ هَذِهِ تَقُولُ قَالَ إِنَّهَا تَقُولُ ذَلِكَ فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ وَقَدْ أَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ فِي نَفْسِهِ مِنْ عِدَتِهِ الَّتِي وَعَدَهُ فَرَجَعَ فَقَالَ لِخَوْلَةَ ادْعِي لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَتْهُ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ وَعَائِشَةُ يَوْمَئِذٍ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ ثُمَّ خَرَجَتْ فَدَخَلَتْ عَلَى سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ فَقَالَتْ مَاذَا أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكِ مِنْ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ قَالَتْ مَا ذَاكَ قَالَتْ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُكِ عَلَيْهِ قَالَتْ وَدِدْتُ ادْخُلِي إِلَى أَبِي فَاذْكُرِي ذَاكَ لَهُ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ أَدْرَكَهُ السِّنُّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنْ الْحَجِّ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ فَحَيَّتْهُ بِتَحِيَّةِ الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ فَقَالَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ قَالَ فَمَا شَأْنُكِ قَالَتْ أَرْسَلَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْطُبُ عَلَيْهِ سَوْدَةَ قَالَ كُفْءٌ كَرِيمٌ مَاذَا تَقُولُ صَاحِبَتُكِ قَالَتْ تُحِبُّ ذَاكَ قَالَ ادْعُهَا لِي فَدَعَيْتُهَا قَالَ أَيْ بُنَيَّةُ إِنَّ هَذِهِ تَزْعُمْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَرْسَلَ يَخْطُبُكِ وَهُوَ كُفْءٌ كَرِيمٌ أَتُحِبِّينَ أَنْ أُزَوِّجَكِ بِهِ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ ادْعِيهِ لِي فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ فَجَاءَهَا أَخُوهَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ مِنْ الْحَجِّ فَجَعَلَ يَحْثِي فِي رَأْسِهِ التُّرَابَ فَقَالَ بَعْدَ أَنْ أَسْلَمَ لَعَمْرُكَ إِنِّي لَسَفِيهٌ يَوْمَ أَحْثِي فِي رَأْسِي التُّرَابَ أَنْ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فِي السُّنْحِ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بَيْتَنَا وَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَنِسَاءٌ فَجَاءَتْنِي أُمِّي وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ بَيْنَ عَذْقَيْنِ تَرْجَحُ بِي فَأَنْزَلَتْنِي مِنْ الْأُرْجُوحَةِ وَلِي جُمَيْمَةٌ فَفَرَقَتْهَا وَمَسَحَتْ وَجْهِي بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ ثُمَّ أَقْبَلَتْ تَقُودُنِي حَتَّى وَقَفَتْ بِي عِنْدَ الْبَابِ وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ مِنْ نَفْسِي ثُمَّ دَخَلَتْ بِي فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى سَرِيرٍ فِي بَيْتِنَا وَعِنْدَهُ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَجْلَسَتْنِي فِي حِجْرِهِ ثُمَّ قَالَتْ هَؤُلَاءِ أَهْلُكِ فَبَارَكَ اللَّهُ لَكِ فِيهِمْ وَبَارَكَ لَهُمْ فِيكِ فَوَثَبَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَخَرَجُوا وَبَنَى بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِنَا مَا نُحِرَتْ عَلَيَّ جَزُورٌ وَلَا ذُبِحَتْ عَلَيَّ شَاةٌ حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيْنَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ بِجَفْنَةٍ كَانَ يُرْسِلُ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَارَ إِلَى نِسَائِهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی مرویات
ابو سلمہ (رح) اور یحییٰ (رح) کہتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ ؓ فوت ہوگئیں تو خولہ بنت حکیم ؓ " جو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کی اہلیہ تھیں " نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! ﷺ آپ نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ نبی ﷺ نے فرمایا کس سے؟ انہوں نے عرض کیا اگر آپ چاہیں تو کنواری لڑکی بھی موجود ہے اور شوہر دیدہ بھی موجود ہے، نبی ﷺ نے پوچھا کنواری لڑکی کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی مخلوق میں آپ کو سب سے محبوب آدمی کی بیٹی یعنی عائشہ بنت ابی بکر، نبی ﷺ نے پوچھا شوہر دیدہ کون ہے، انہوں نے عرض کیا سودہ بنت زمعہ، جو آپ پر ایمان رکھتی ہے اور آپ کی شریعت کی پیروی کرتی ہے، تو نبی ﷺ نے فرمایا جاؤ اور دونوں کے یہاں میرا تذکرہ کردو۔ چناچہ حضرت خولہ ؓ سیدنا صدیق اکبر کے گھر پہنچیں اور کہنے لگیں اے ام رومان! اللہ تمہارے گھر میں کتنی بڑی خیرو برکت داخل کرنے والا ہے، ام رومان نے پوچھا وہ کیسے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے مجھے عائشہ ؓ سے اپنے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے، ام رومان ؓ نے کہا کہ ابوبکر کے آنے کا انتظار کرلو، تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابوبکر ؓ بھی آگئے، حضرت خولہ ؓ اور ان کے درمیان بھی یہی سوال جواب ہوتے ہیں، حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ کے لئے عائشہ ؓ سے نکاح کرنا جائز ہے؟ کیونکہ وہ تو ان کی بھتیجی ہے، خولہ ؓ واپس نبی ﷺ کے پاس پہنچیں اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا انہیں جا کر کہہ دو کہ میں تمہارا اور تم میرے اسلامی بھائی ہو، اس لئے تمہاری بیٹی سے میرے لئے نکاح کرنا جائز ہے، انہوں نے واپس آکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو یہ جواب بتادیا، انہوں نے فرمایا تھوڑی دیر انتظار کرو اور خود باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ام رومان ؓ نے بتایا کہ مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے سے حضرت عائشہ ؓ کا رشتہ مانگا تھا اور واللہ ابوبکر نے کبھی بھی وعدہ کر کے وعدہ خلافی نہیں کی تھی، لہذا ابوبکر ؓ پہلے مطعم بن عدی کے پاس گئے، اس کے پاس اس کی بیوی ام الفتی بھی موجود تھی، وہ کہنے لگی، اے ابن ابی قخافہ! اگر ہم نے اپنے بیٹے کا نکاح آپ کے یہاں کردیا تو ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے بیٹے کو بھی دین میں داخل کرلیں، حضرت ابوبکر ؓ نے مطعم بن عدی سے پوچھا کہ کیا تم بھی یہی رائے رکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ اس کی بات صحیح ہے، چناچہ حضرت ابوبکر ؓ وہاں سے نکل آئے اور ان کے ذہن پر وعدہ خلافی کا جو بوجھ تھا وہ اللہ نے اس طرح دور کردیا اور انہوں نے واپس آکر خولہ ؓ سے کہا کہ نبی ﷺ کو میرے یہاں بلا کرلے آؤ، خولہ جا کر نبی ﷺ کو لے آئیں اور حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کا نکاح نبی ﷺ سے کردیا، اس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر چھ سال تھی۔ اس کے بعد خولہ ؓ وہاں سے نکل کر سودہ بنت زمعہ ؓ کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ اللہ تمہارے گھر میں کتنی بڑی خیروبرکت داخل کرنے والا ہے، سودہ ؓ نے پوچھا وہ کیسے؟ خولہ ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھے تمہارے پاس اپنی جانب سے پیغام نکاح دیکر بھیجا ہے، انہوں نے کہا بہتر ہے کہ تم میرے والد کے پاس جا کر ان سے اس بات کا ذکر کرو، سودہ کے والد بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور ان کی عمر اتنی زیادہ ہوچکی تھی کہ وہ حج نہیں کرسکتے تھے، خولہ ان کے پاس گئیں اور زمانہ جاہلیت کے طریقے کے مطابق انہیں اداب کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ بتایا کہ میں خولہ بنت حکیم ہوں، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ خولہ نے کہا کہ مجھے محمد ﷺ بن عبداللہ نے سودہ سے اپنا پیغام نکاح بھیجا ہے، زمعہ نے کہا کہ وہ تو بہترین جوڑ ہے، تمہاری سہیلی کی کیا رائے ہے؟ خولہ نے کہا کہ اسے یہ رشتہ پسند ہے، زمعہ نے کہا کہ اسے میرے پاس بلاؤ، خولہ نے انہیں بلایا تو زمعہ نے ان سے پوچھا پیاری بیٹی! ان کا کہنا ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اسے تم سے اپنا پیغام نکاح دے کر بھیجا ہے اور وہ بہترین جوڑ ہے تو کیا تم چاہتی ہو کہ میں ان سے تمہارا نکاح کر دوں؟ سودہ ؓ نے حامی بھر لی، زمعہ نے مجھ سے کہا کہ نبی ﷺ کو میرے پاس بلا کرلے آؤ، چناچہ نبی ﷺ تشریف لے آئے اور زمعہ نے ان سے حضرت سودہ ؓ کا نکاح کردیا، چند دنوں کے بعد حضرت سودہ ؓ کا بھائی عبد بن زمعہ حج سے واپس آیا، اسے اس رشتے کا علم ہوا تو وہ اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کہتے تھے تمہاری زندگی کی قسم! میں اس دن بڑی بیوقوفی کر رہا تھا جب سودہ کے ساتھ نبی ﷺ کا نکاح ہونے پر میں اپنے سر پر مٹی ڈال رہا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے " مقام سخ " میں بنو حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا، ایک دن نبی ﷺ ہمارے گھر میں تشریف لے آئے اور کچھ انصاری مرد و عورت بھی اکٹھے ہوگئے، میری والدہ مجھے لے آئیں جبکہ میں دو درختوں کے درمیان جھولا جھول رہی تھی اور میرے سر پر کسی وجہ سے بہت تھوڑے بال تھے، انہوں نے مجھے جھولے سے نیچے اتارا، مجھے پسینہ آیا ہوا تھا، اسے پونچھا اور پانی سے میرا منہ دھلایا اور مجھے لے کر چل پڑیں، حتیٰ کہ دروازے پر پہنچ کر رک گئیں، میری سانس پھول رہی تھی، جب میری سانس بحال ہوئی تو وہ مجھے گھر لے کر داخل ہوگئیں، وہاں نبی ﷺ ہمارے گھر میں ایک چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے اور انصار کے کچھ مرو و عورت بھی موجود تھے، میری والدہ نے مجھے نبی ﷺ کے قریب بٹھا دیا اور کہنے لگیں کہ یہ آپ کے گھر والے ہیں، اللہ آپ کو ان کے لئے اور انہیں آپ کے لئے مبارک فرمائے، اس کے بعد مردو عورت یکے بعد دیگرے وہاں سے جانے لگے اور نبی ﷺ نے ہمارے گھر میں ہی میرے ساتھ تخلیہ فرمایا: میری اس شادی کے لئے کوئی اونٹ ذبح نہ ہوا اور نہ بکری، تاآنکہ سعد بن عبادہ نے ہمارے یہاں ایک پیالہ بھیجا جو وہ نبی ﷺ کے پاس اس وقت بھیجتے تھے جب نبی ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے پاس جاتے تھے اور اس وقت میری عمر نو سال کی تھی۔
Top