مسند امام احمد - حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کی مرویات - حدیث نمبر 25762
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدَّتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ لَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي طُوًى قَالَ أَبُو قُحَافَةَ لِابْنَةٍ لَهُ مِنْ أَصْغَرِ وَلَدِهِ أَيْ بُنَيَّةُ اظْهَرِي بِي عَلَى أَبِي قَبِيسٍ قَالَتْ وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ قَالَتْ فَأَشْرَفْتُ بِهِ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا بُنَيَّةُ مَاذَا تَرَيْنَ قَالَتْ أَرَى سَوَادًا مُجْتَمِعًا قَالَ تِلْكَ الْخَيْلُ قَالَتْ وَأَرَى رَجُلًا يَسْعَى بَيْنَ ذَلِكَ السَّوَادِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا قَالَ يَا بُنَيَّةُ ذَلِكَ الْوَازِعُ يَعْنِي الَّذِي يَأْمُرُ الْخَيْلَ وَيَتَقَدَّمُ إِلَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ قَدْ وَاللَّهِ انْتَشَرَ السَّوَادُ فَقَالَ قَدْ وَاللَّهِ إِذَا دَفَعَتْ الْخَيْلُ فَأَسْرِعِي بِي إِلَى بَيْتِي فَانْحَطَّتْ بِهِ وَتَلَقَّاهُ الْخَيْلُ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى بَيْتِهِ وَفِي عُنُقِ الْجَارِيَةِ طَوْقٌ لَهَا مِنْ وَرِقٍ فَتَلَقَّاهُ الرَّجُلُ فَاقْتَلَعَهُ مِنْ عُنُقِهَا قَالَتْ فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَدَخَلَ الْمَسْجِدَ أَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ بِأَبِيهِ يَعُودُهُ فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَلَّا تَرَكْتَ الشَّيْخَ فِي بَيْتِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا آتِيهِ فِيهِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ أَحَقُّ أَنْ يَمْشِيَ إِلَيْكَ مِنْ أَنْ تَمْشِيَ أَنْتَ إِلَيْهِ قَالَ فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ مَسَحَ صَدْرَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَأَسْلَمَ وَدَخَلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ كَأَنَّهُ ثَغَامَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيِّرُوا هَذَا مِنْ شَعْرِهِ ثُمَّ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِيَدِ أُخْتِهِ فَقَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ وَبِالْإِسْلَامِ طَوْقَ أُخْتِي فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَقَالَ يَا أُخَيَّةُ احْتَسِبِي طَوْقَكِ
حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کی مرویات
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ مقم ذی طوی پر پہنچ کر رکے تو ابوقحافہ نے اپنے چھوٹے بیٹے کی لڑکی سے کہا بیٹی! مجھے ابوقبیس پر لے کر چڑھو! اس وقت تک ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ انہیں اس پہاڑ پر لے کر چڑھ گئی تو ابوقحافہ نے پوچھا بیٹی! تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟ اس نے کہا کہ ایک بہت بڑا لشکر جو اکٹھا ہو کر آیا ہوا ہے ابوقحافہ نے کہا کہ وہ گھڑ سوار لوگ ہیں ان کی پوتی کا کہنا ہے کہ میں نے اس لشکر کے آگے آگے ایک آدمی کو دوڑتے ہوئے دیکھا جو کبھی آگے آجاتا تھا اور کبھی پیچھے ابوقحافہ نے بتایا کہ وہ واضح ہوگیا یعنی وہ آدمی جو شہسواروں کو حکم دیتا اور ان سے آگے رہتا ہے، وہ کہتی ہے کہ پھر وہ لشکرپھیلنا شروع ہوگیا، اس پر ابوقحافہ نے کہا واللہ پھر تو گھڑ سوار لوگ روانہ ہوگئے ہیں، تم مجھے جلدی سے گھرلے چلو، وہ انہیں لے کرنیچے اترنے لگی لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے گھرتک پہنچتے لشکر وہاں تک پہنچ چکا تھا، اس بچی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا جو ایک آدمی نے اس کی گردن میں سے اتار لیا۔ جب نبی ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت صدیق اکبر بارگاہ نبوت میں اپنے والد کو لے کر حاضر ہوئے، نبی ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا آپ انہیں گھر میں ہی رہنے دیتے، میں خود ہی وہاں چلا جاتا، حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ان کا زیادہ حق بنتا ہے کہ یہ آپ کے پاس چل کر آئیں بہ نسبت اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں پھر انہیں نبی ﷺ کے سامنے بٹھادیا، نبی ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر انہیں قبول اسلام کی دعوت دی چناچہ وہ مسلمان ہوگئے، جس وقت حضرت ابوبکر انہیں لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو ان کا سر ثغامہ نامی بوٹی کی طرح (سفید) ہوچکا تھا نبی ﷺ نے فرمایا ان کے بالوں کو رنگ کردو پھر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتاہوں کہ میری بہن کا ہار واپس لوٹا دو، لیکن کسی نے اس کا جواب نہ دیا، تو حضرت صدیق اکبرنے فرمایا پیاری بہن اپنے ہار پر ثواب کی امید رکھو۔
Top