مسند امام احمد - حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 203
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا قَالَ فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ ثُمَّ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا فَهَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِكِينَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدْيَةَ فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَتْ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ الْفِدَاءِ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلَا كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ مِنْ الْفِدَاءِ ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا الْآيَةَ بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ
حضرت عمر فاروق ؓ کی مرویات
حضرت عمر فاروق ؓ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی ﷺ نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ ﷺ مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گرگئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر ؓ آگے بڑھے، نبی ﷺ کی چادر کو اٹھا کر نبی ﷺ پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی ﷺ کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کرلیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چناچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر ؓ عنہ، حضرت علی ؓ اور حضرت عمر ؓ سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر ؓ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست وبازو بن جائیں گے۔ نبی ﷺ نے پوچھا ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر ؓ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر ؓ کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی ؓ کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہوجائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر ؓ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر ؓ رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام ؓ نبی ﷺ کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی ﷺ کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی ﷺ کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
Top