مسند امام احمد - حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 323
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ أَمَلَّهُ عَلَيَّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَامَ خَطِيبًا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ رُؤْيَا كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ وَلَا أُرَى ذَلِكَ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي وَإِنَّ نَاسًا يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ خِلَافَتَهُ وَدِينَهُ وَلَا الَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَأَيُّهُمْ بَايَعْتُمْ لَهُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رِجَالًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ وَإِنِّي قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ فَعَلُوا فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلَالَةِ وَلَقَدْ سَأَلْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ قَطُّ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا حَتَّى طَعَنَ بِيَدِهِ أَوْ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي أَوْ جَنْبِي وَقَالَ يَا عُمَرُ تَكْفِيكَ الْآيَةُ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا قَضِيَّةً لَا يَخْتَلِفُ فِيهَا أَحَدٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ أَوْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ فَإِنِّي بَعَثْتُهُمْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ دِينَهُمْ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ وَيَقْسِمُونَ فِيهِمْ فَيْئَهُمْ وَيُعَدِّلُونَ عَلَيْهِمْ وَمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ يَرْفَعُونَهُ إِلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ لَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ بِهِ إِلَى الْبَقِيعِ فَمَنْ كَانَ آكِلَهُمَا لَا بُدَّ فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا قَالَ فَخَطَبَ بِهَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ
حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم ؓ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی، نبی ﷺ کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر ؓ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی ﷺ بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! نبی ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی ﷺ کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ پھر فرمایا لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی ﷺ کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ ﷺ حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو حضرت فاروق اعظم ؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور ٢٦ ذی الحجہ بروز بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
Top