مسند امام احمد - حضرت سہل بن حنیف کی مرویات۔ - حدیث نمبر 15410
حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ فِي مَسْجِدِ أَهْلِهِ أَسْأَلُهُ عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ بِالنَّهْرَوَانِ فَفِيمَا اسْتَجَابُوا لَهُ وَفِيمَا فَارَقُوهُ وَفِيمَا اسْتَحَلَّ قِتَالَهُمْ قَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَهْلِ الشَّامِ اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ أَرْسِلْ إِلَى عَلِيٍّ بِمُصْحَفٍ وَادْعُهُ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَنْ يَأْبَى عَلَيْكَ فَجَاءَ بِهِ رَجُلٌ فَقَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنْ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ فَقَالَ عَلِيٌّ نَعَمْ أَنَا أَوْلَى بِذَلِكَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ قَالَ فَجَاءَتْهُ الْخَوَارِجُ وَنَحْنُ نَدْعُوهُمْ يَوْمَئِذٍ الْقُرَّاءَ وَسُيُوفُهُمْ عَلَى عَوَاتِقِهِمْ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا نَنْتَظِرُ بِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ عَلَى التَّلِّ أَلَا نَمْشِي إِلَيْهِمْ بِسُيُوفِنَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَتَكَلَّمَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي الصُّلْحَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَى قَالَ فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي أَبَدًا قَالَ فَرَجَعَ وَهُوَ مُتَغَيِّظٌ فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى أَتَى أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَى قَالَ فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا قَالَ فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ قَالَ فَأَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُمَرَ فَأَقْرَأَهَا إِيَّاهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَفَتْحٌ هُوَ قَالَ نَعَمْ
حضرت سہل بن حنیف کی مرویات۔
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابو وائل کے پاس ان کے گھر کی مسجد میں آیا تاکہ ان سے ان لوگوں کے متعلق پوچھ سکوں جنہیں حضرت علی نے نہروان کے مقام پر قتل کیا تھا انہوں نے حضرت علی کی کون سی بات مانی کس میں اختلاف کیا۔ اور حضرت علی نے کس بناء پر ان سے قتال کو جائز سمجھا وہ کہنے لگے کہ ہم لوگ صفین میں تھے جب اہل شام کے مقتولین کی تعداد زیادہ بڑھنے لگی تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور حضرت عمرو بن عاص نے حضرت امیر معاویہ سے کہا کہ آپ حضرت علی کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ بھیجیے اور انہیں کتاب اللہ کی دعوت دیجیے وہ آپ کی بات سے کسی صورت انکار نہیں کریں گے۔ چناچہ حضرت علی کے پاس ایک آدمی یہ پیغام لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ثالث ہے اور یہ آیت پڑھی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا وہ انہیں کتاب اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا زیادہ حق دارہوں ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ثالث ہے اس کے بعد خوارج جنہیں ہم اس وقت قراء کہتے تھے حضرت علی کے پاس اپنے کندھوں پر تلواریں لٹکائے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ اے امیر المومنین یہ لوگ جو ٹیلے پر ہیں ان کے متعلق ہم کس چیز کا انتظار کررہے ہیں کیا ہم ان پر اپنی تلواریں لے کر حملہ نہ کردے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ اس پر حضرت سہل بن حنیف بولے اور کہنے لگے اے لوگو اپنے آپ کو ہمیشہ صحیح مت سمجھا کرو ہم نے حدیبیہ کا وہ دن بھی دیکھا ہے جس میں نبی ﷺ اور مشرکین کے درمیان صلح ہوئی تھی اگر ہم جنگ کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے اسی دوران حضرت عمر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ کیا ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے نبی ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں وہ کہنے لگے کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں دب کر صلح کیوں کریں اور اسی طرح واپس لوٹ جائیں کہ اللہ نے ابھی تک ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا نبی ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب میں اللہ کا پیغمبر ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا۔ حضرت عمر اسی طرح غصے کی حالت میں واپس چلے گئے اور ان سے صبر نہ ہوسکا وہ حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے اور ان سے بھی یہی سوال و جواب ہوئے حضرت صدیق اکبر نے فرمایا وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا اس کے بعد سورت فتح نازل ہوئی تو نبی ﷺ نے مجھے حضرت عمر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ سورت پڑھ کر سنائی حضرت عمر کہنے لگے یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے نبی ﷺ نے فرمایا ہاں۔
Top