مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2415
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلَّا لَهُ دَعْوَةٌ قَدْ تَنَجَّزَهَا فِي الدُّنْيَا وَإِنِّي قَدْ اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي وَأَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي وَلَا فَخْرَ وَيَطُولُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ عَلَى النَّاسِ فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى آدَمَ أَبِي الْبَشَرِ فَلْيَشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا عَزَّ وَجَلَّ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ يَا آدَمُ أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَيَقُولُ إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ إِنِّي قَدْ أُخْرِجْتُ مِنْ الْجَنَّةِ بِخَطِيئَتِي وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا رَأْسَ النَّبِيِّينَ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَيَقُولُ إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ إِنِّي دَعَوْتُ بِدَعْوَةٍ أَغْرَقَتْ أَهْلَ الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ اللَّهِ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَيَقُولُ إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ إِنِّي كَذَبْتُ فِي الْإِسْلَامِ ثَلَاثَ كِذْبَاتٍ وَاللَّهِ إِنْ حَاوَلَ بِهِنَّ إِلَّا عَنْ دِينِ اللَّهِ قَوْلُهُ إِنِّي سَقِيمٌ وَقَوْلُهُ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ وَقَوْلُهُ لِامْرَأَتِهِ حِينَ أَتَى عَلَى الْمَلِكِ أُخْتِي وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام الَّذِي اصْطَفَاهُ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَكَلَامِهِ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَكَلَّمَكَ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ إِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَيَقُولُ إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ إِنِّي اتُّخِذْتُ إِلَهًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي وَلَكِنْ أَرَأَيْتُمْ لَوْ كَانَ مَتَاعٌ فِي وِعَاءٍ مَخْتُومٍ عَلَيْهِ أَكَانَ يُقْدَرُ عَلَى مَا فِي جَوْفِهِ حَتَّى يُفَضَّ الْخَاتَمُ قَالَ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقُولُ إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَقَدْ حَضَرَ الْيَوْمَ وَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا فَأَقُولُ أَنَا لَهَا حَتَّى يَأْذَنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ شَاءَ وَيَرْضَى فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْ يَصْدَعَ بَيْنَ خَلْقِهِ نَادَى مُنَادٍ أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ فَنَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ يُحَاسَبُ فَتُفْرَجُ لَنَا الْأُمَمُ عَنْ طَرِيقِنَا فَنَمْضِي غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الطُّهُورِ فَتَقُولُ الْأُمَمُ كَادَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ أَنْ تَكُونَ أَنْبِيَاءَ كُلُّهَا فَنَأْتِي بَابَ الْجَنَّةِ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ الْبَابِ فَأَقْرَعُ الْبَابَ فَيُقَالُ مَنْ أَنْتَ فَأَقُولُ أَنَا مُحَمَّدٌ فَيُفْتَحُ لِي فَآتِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُرْسِيِّهِ أَوْ سَرِيرِهِ شَكَّ حَمَّادٌ فَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَمْ يَحْمَدْهُ بِهَا أَحَدٌ كَانَ قَبْلِي وَلَيْسَ يَحْمَدُهُ بِهَا أَحَدٌ بَعْدِي فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَقُلْ تُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أَيْ رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ أَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ كَذَا وَكَذَا لَمْ يَحْفَظْ حَمَّادٌ ثُمَّ أُعِيدُ فَأَسْجُدُ فَأَقُولُ مَا قُلْتُ فَيُقَالُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ أَيْ رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ أَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ كَذَا وَكَذَا دُونَ الْأَوَّلِ ثُمَّ أُعِيدُ فَأَسْجُدُ فَأَقُولُ مِثْلَ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِيَ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ أَيْ رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَقَالَ أَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ كَذَا وَكَذَا دُونَ ذَلِكَ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
ابونضرہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جامع بصرہ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی کی کم از کم ایک دعاء ایسی ضرور تھی جو انہوں نے دنیا میں پوری کروا لی، لیکن میں نے اپنی دعاء کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے ذخیرہ کرلیا ہے، میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میں اس پر فخر نہیں کرتا، میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین کو ہٹایا جائے گا اور میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، میرے ہی ہاتھ میں لواء الحمد (حمد کا جھنڈا) ہوگا اور میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ سب لوگ میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا۔ قیامت کا دن لوگوں کو بہت لمبا محسوس ہوگا، وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ آؤ، حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس چلتے ہییں، وہ ابو البشر ہیں کہ وہ ہمارے پروردگار کے سامنے سفارش کردیں تاکہ وہ ہمارا حساب کتاب شروع کر دے، چناچہ سب لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے آدم! آپ وہی تو ہیں جنہیں اللہ نے اپنے دست مبارک سے پیدا فرمایا: اپنی جنت میں ٹھہرایا اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا، آپ پروردگار سے سفارش کردیں کہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ کہیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، مجھے میری ایک خطا کی وجہ سے جنت سے نکال دیا گیا تھا، آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی جڑ ہیں۔ چناچہ ساری مخلوق اور تمام انسان حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے نوح! آپ ہمارے پروردگار سے سفارش کردیں تاکہ وہ ہمارا حساب شروع کردے، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میں نے ایک دعاء مانگی تھی جس کی وجہ سے زمین والوں کو غرق کردیا گیا تھا، آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ۔ چناچہ سب لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اے ابراہیم! آپ ہمارے رب سے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میں نے زمانہ اسلام میں تین مرتبہ ذو معنی لفظ بولے تھے جن سے مراد بخدا! دین ہی تھا (ایک اپنے آپ کو بیمار بتایا تھا، دوسرا یہ فرمایا تھا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے اور تیسرا یہ کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر اپنی اہلیہ کو اپنی بہن قرار دیا تھا) آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ، جنہیں اللہ نے اپنی پیغامبری اور اپنے کلام کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ اب سارے لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچیں گے اور ان سے کہیں گے کہ اے موسیٰ! آپ ہی تو ہیں جنہیں اللہ نے اپنی پیغمبری کے لئے منتخب کیا اور آپ سے بلا واسطہ کلام فرمایا: آپ اپنے پروردگار سے سفارش کر کے ہمارا حساب شروع کروا دیں، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میں نے ایک شخص کو بغیر کسی نفس کے بدلے کے قتل کردیا تھا، اس لئے آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ جو روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں، چناچہ سب لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ آپ اپنے پروردگار سے سفارش کردیں تاکہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ فرمائیں گے کہ میں تو اس کام کا اہل نہیں ہوں، لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر مجھے معبود بنا لیا تھا، اس لئے آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ یہ بتاؤ کہ اگر کوئی چیز کسی ایسے برتن میں پڑی ہوئی ہو جس پر مہر لگی ہوئی ہو، کیا مہر توڑے بغیر اس برتن میں موجود چیز کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟ لوگ کہیں گے نہیں، اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ حضرت محمد ﷺ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی مہر ہیں، آج وہ یہاں موجود بھی ہیں اور ان کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف بھی ہوچکے ہیں (لہذاتم ان کے پاس جاؤ)۔ نبی ﷺ نے فرمایا پھر وہ سب میرے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے اے محمد ﷺ! اپنے رب سے سفارش کر کے ہمارا حساب شروع کروا دیجئے، نبی ﷺ فرمائیں گے کہ ہاں! میں اس کا اہل ہوں، یہاں تک کہ اللہ ہر اس شخص کو اجازت دے جسے چاہے اور جس سے خوش ہو، جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ کرنے کا ارادہ فرمائیں گے تو ایک منادی اعلان کرے گا کہ احمد ﷺ اور ان کی امت کہاں ہے؟ ہم سب سے آخر میں آئے اور سب سے آگے ہوں گے، ہم سب سے آخری امت ہیں لیکن سب سے پہلے ہمارا حساب ہوگا اور ساری امتیں ہمارے لئے راستہ چھوڑ دیں گی اور ہم اپنے وضو کے اثرات سے روشن پیشانیوں کے ساتھ روانہ ہوجائیں گے، دوسری امتیں یہ دیکھ کر کہیں گی کہ اس امت کے تو سارے لوگ ہی نبی محسوس ہوتے ہیں۔ بہرحال! میں جنت کے دروازے پر پہنچ کر دروازے کا حلقہ پکڑ کر اسے کھٹکھٹاؤں گا، اندر سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ہوں ﷺ چناچہ دروازہ کھول دیا جائے گا، میں اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوں گا جو اپنے تخت پر رونق افروز ہوگا، میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا کہ مجھ سے پہلے کسی نے ایسی تعریف کی ہوگی اور نہ بعد میں کوئی کرسکے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد! سر تو اٹھائیے، آپ جو مانگیں گے، آپ کو ملے گا، جو بات کہیں گے اس کی شنوائی ہوگی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا کہ پروردگار! میری امت، میری امت! ارشاد ہوگا کہ جس کے دل میں اتنے مثقال (راوی اس کی مقدار یاد نہیں رکھ سکے) کے برابر ایمان ہو، اسے جہنم سے نکال لیجئے، ایسا کر چکنے کے بعد میں دوبارہ واپس آؤں گا اور بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہو کر حسب سابق اس کی تعریف کروں گا اور مذکورہ سوال جواب کے بعد مجھ سے کہا جائے گا کہ جس کے دل میں اتنے مثقال (پہلے سے کم مقدار میں) ایمان موجود ہو، اسے جہنم سے نکال لیجئے، تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوگا۔
Top