حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مرویات
عثمان بن عبداللہ بن موہب (رح) کہتے ہیں کہ مصر سے ایک آدمی حضرت ابن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابن عمر! اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے جواب دیں گے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اس نے حضرت عثمان ؓ کے حوالے سے مختلف سوال پوچھے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا اب آؤ میں تمہیں ان تمام چیزوں کی حقیقت سے آگاہ کروں جن کے متعلق تم نے مجھ سے پوچھا ہے، جہاں تک غزوہ احد کے موقع پر بھاگنے کی بات ہے تو میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ نے ان سے درگذر کی اور انہیں معاف فرما دیا ہے غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی (حضرت رقیہ ؓ جو کہ حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں تھیں اس وقت بیمار تھیں نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ (تم یہیں رہ کر اس کی تیمارداری کرو) تمہیں غزوہ بدر کے شرکاء کے برابر اجر بھی ملے گا اور مال غنیمت کا حصہ بھی، رہی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اگر بطن مکہ میں عثمان سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تو نبی کریم ﷺ اسی کو بھیجتے، نبی کریم ﷺ نے خود حضرت عثمان کو مکہ مکرمہ میں بھیجا تھا اور بیعت رضوان ان کے جانے کے بعد ہوئی تھی اور نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا تھا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اس کے بعد حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ان باتوں کو اپنے ساتھ لے کرچلاجا۔