مسند امام احمد - حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات - حدیث نمبر 15944
قَالَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أُبْدِيَهُ مَعَ الْإِبِلِ فَلَمَّا كَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَتَلَ رَاعِيَهَا وَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ اقْعُدْ عَلَى هَذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْهُ بِطَلْحَةَ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ أُغِيرَ عَلَى سَرْحِهِ قَالَ وَقُمْتُ عَلَى تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْهِي مِنْ قِبَلِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَا صَبَاحَاهْ ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِي سَيْفِي وَنَبْلِي فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَعْقِرُ بِهِمْ وَذَلِكَ حِينَ يَكْثُرُ الشَّجَرُ فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَهُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَمَيْتُ فَلَا يُقْبِلُ عَلَيَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِهِ فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَنَا أَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَلْحَقُ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ فَأَرْمِيهِ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَيَقَعُ سَهْمِي فِي الرَّحْلِ حَتَّى انْتَظَمْتُ كَتِفَهُ فَقُلْتُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَإِذَا كُنْتُ فِي الشَّجَرِ أَحْرَقْتُهُمْ بِالنَّبْلِ فَإِذَا تَضَايَقَتْ الثَّنَايَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَرَدَيْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ فَمَا زَالَ ذَاكَ شَأْنِي وَشَأْنَهُمْ أَتْبَعُهُمْ فَأَرْتَجِزُ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي فَاسْتَنْقَذْتُهُ مِنْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ رُمْحًا وَأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا وَلَا يُلْقُونَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ حِجَارَةً وَجَمَعْتُ عَلَى طَرِيقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا امْتَدَّ الضُّحَى أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ مَدَدًا لَهُمْ وَهُمْ فِي ثَنِيَّةٍ ضَيِّقَةٍ ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَأَنَا فَوْقَهُمْ فَقَالَ عُيَيْنَةُ مَا هَذَا الَّذِي أَرَى قَالُوا لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتَّى الْآنَ وَأَخَذَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا وَجَعَلَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ قَالَ عُيَيْنَةُ لَوْلَا أَنَّ هَذَا يَرَى أَنَّ وَرَاءَهُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَكَكُمْ لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ فَقَامَ إِلَيْهِ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلِ فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمْ الصَّوْتَ قُلْتُ أَتَعْرِفُونِي قَالُوا وَمَنْ أَنْتَ قُلْتُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَطْلُبُنِي مِنْكُمْ رَجُلٌ فَيُدْرِكُنِي وَلَا أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ إِنْ أَظُنُّ قَالَ فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِي ذَلِكَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ وَإِذَا أَوَّلُهُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ وَعَلَى أَثَرِهِ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى أَثَرِ أَبِي قَتَادَةَ الْمِقْدَادُ الْكِنْدِيُّ فَوَلَّى الْمُشْرِكُونَ مُدْبِرِينَ وَأَنْزِلُ مِنْ الْجَبَلِ فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فَقُلْتُ يَا أَخْرَمُ ائْذَنْ الْقَوْمَ يَعْنِي احْذَرْهُمْ فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَقْطَعُوكَ فَاتَّئِدْ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ قَالَ يَا سَلَمَةُ إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ قَالَ فَخَلَّيْتُ عِنَانَ فَرَسِهِ فَيَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ فَرَسِ الْأَخْرَمِ فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ بِأَبِي قَتَادَةَ وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ ثُمَّ إِنِّي خَرَجْتُ أَعْدُو فِي أَثَرِ الْقَوْمِ حَتَّى مَا أَرَى مِنْ غُبَارِ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا وَيُعْرِضُونَ قَبْلَ غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ ذُو قَرَدٍ فَأَرَادُوا أَنْ يَشْرَبُوا مِنْهُ فَأَبْصَرُونِي أَعْدُو وَرَاءَهُمْ فَعَطَفُوا عَنْهُ وَاشْتَدُّوا فِي الثَّنِيَّةِ ثَنِيَّةِ ذِي بِئْرٍ وَغَرَبَتْ الشَّمْسُ فَأَلْحَقُ رَجُلًا فَأَرْمِيهِ فَقُلْتُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ قَالَ فَقَالَ يَا ثُكْلَ أُمِّ أَكْوَعَ بَكْرَةً قُلْتُ نَعَمْ أَيْ عَدُوَّ نَفْسِهِ وَكَانَ الَّذِي رَمَيْتُهُ بَكْرَةً فَأَتْبَعْتُهُ سَهْمًا آخَرَ فَعَلِقَ بِهِ سَهْمَانِ وَيَخْلُفُونَ فَرَسَيْنِ فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي جَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُوْ قَرَدٍ فَإِذَا بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمْسِ مِائَةٍ وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ فَهُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَلِّنِي فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِكَ مِائَةً فَآخُذَ عَلَى الْكُفَّارِ عَشْوَةً فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ قَالَ أَكُنْتَ فَاعِلًا ذَلِكَ يَا سَلَمَةُ قَالَ نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ فِي ضُوءِ النَّارِ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُمْ يُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ فَقَالَ مَرُّوا عَلَى فُلَانٍ الْغَطَفَانِيِّ فَنَحَرَ لَهُمْ جَزُورًا قَالَ فَلَمَّا أَخَذُوا يَكْشِطُونَ جِلْدَهَا رَأَوْا غَبَرَةً فَتَرَكُوهَا وَخَرَجُوا هَرَبًا فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ وَخَيْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهَا قَرِيبًا مِنْ ضَحْوَةٍ وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَ لَا يُسْبَقُ جَعَلَ يُنَادِي هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ أَلَا رَجُلٌ يُسَابِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَأَعَادَ ذَلِكَ مِرَارًا وَأَنَا وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْدِفِي قُلْتُ لَهُ أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا وَلَا تَهَابُ شَرِيفًا قَالَ لَا إِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي خَلِّنِي فَلَأُسَابِقُ الرَّجُلَ قَالَ إِنْ شِئْتَ قُلْتُ أَذْهَبُ إِلَيْكَ فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِهِ وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ عَنْ النَّاقَةِ ثُمَّ إِنِّي رَبَطْتُ عَلَيْهَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ يَعْنِي اسْتَبْقَيْتُ نَفْسِي ثُمَّ إِنِّي عَدَوْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ فَأَصُكَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ بِيَدَيَّ قُلْتُ سَبَقْتُكَ وَاللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَ فَضَحِكَ وَقَالَ إِنْ أَظُنُّ حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ
حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ کے زمانے میں نبی ﷺ کے ساتھ آرہے تھے، میں اور نبی ﷺ کا غلام رباح نبی ﷺ کے پیچھے روانہ ہوئے، میں حضرت طلحۃ بن عبیداللہ کا گھوڑا لے کر نکلا، ارادہ یہ تھا کہ اسے اونٹ کے ساتھ شامل کر دوں گا، لیکن منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ نے نبی ﷺ کے اونٹوں پر حملہ کیا اور چرواہے کو قتل کردیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر ان اونٹوں کو بھگا کرلے گیا، حضرت سلمہ کہتے ہیں میں نے کہا اے رباح! یہ گھوڑا پکڑ اور اسے حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے، پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا، یا صباحاہ پھر (اس کے بعد) میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا: میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آکر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوجاتا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کردیئے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا اور وہ رسول اللہ کی سواری کا ہو ایسا نہیں ہوا کہ جسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہونے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے، سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آگئے اور عیینہ بن بدر فزاری بھی ان کے پاس آگیا، سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا، فزاری کہنے لگا کہ یہ کون آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے، اللہ کی قسم! اندھیری رات سے ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ فزاری کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے ماردیں، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہیں) ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں، تو میں نے ان سے کہا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا تم کون ہو؟ میں نے جواب میں کہا: میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں ماردو اور تم میں سے کوئی مجھے مار نہیں سکتا، ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے، (پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور) میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا نہیں تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے حضرت اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے حضرت ابوقتاد تھے اور ان کے پیچھے حضرت مقداد بن اسود کندی تھے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی (یہ دیکھتے ہی) وہ لٹیرے بھاگ پڑے، میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نہ آجائیں، اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ! اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو، میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا، اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا اور عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کردیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران رسول اللہ کے شہسوار حضرت ابوقتادہ آگئے (جب انہوں نے یہ منظر دیکھا) تو حضرت ابوقتادہ نے عبدالرحمن فزاری کو بھی برچھی مار کر قتل کردیا میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے حضرت محمد ﷺ کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گردو غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا، اس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اس گھاٹی سے پانی پئیں کیو کہ وہ پیاسے تھے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا اور میں ان کے پیچھے دوڑتا ہو اچلا آرہا تھا، بالآخر میں نے ان کو پانی سے ہٹایا، وہ اس سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے، پر وہ کسی اور گھاٹی کی طرف نکلے، میں بھی ان کے پیچھے بھاگا اور ان میں سے ایک آدمی کو پا کر میں نے اس کے شانے کی ہڈی میں ایک تیر مارا، میں نے کہا پکڑ اس کو اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن کمینوں کی بربادی کا دن ہے، وہ کہنے لگا اس کی ماں اس پر روئے کیا یہ وہی اکوع تو نہیں جو صبح کو میرے ساتھ تھا، میں نے کہا: ہاں! اے اپنی جان کے دشمن جو صبح کے وقت تیرے ساتھ تھا اور اسے ایک تیرے دے مارا، پھر انہوں نے دو گھوڑے ایک گھاٹی پر چھوڑ دیئے تو میں ان دونوں گھوڑوں کو ہنکا کر رسول اللہ کی طرف لے آیا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ وہاں عامر سے میری ملاقات ہوئی، ان کے پاس ایک چھاگل (چمڑے کا توشہ دان) تھا جس میں دودھ تھا اور ایک مشکیزے میں پان تھا، پانی سے میں نے وضو کیا اور دودھ پی لیا پھر میں رسول اللہ کی خدمت میں آیا اور آپ اسی پانی والی جگہ پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگادیا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ اونٹ اور وہ تمام چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھین لی تھیں اور سب نیزے اور چادریں لے لیں اور حضرت بلال نے ان اونٹوں میں جو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے ایک اونٹ کو ذبح کیا اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ کے لئے بھونا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں لشکر میں سو آدمیوں کا انتخاب کروں اور پھر میں ان لٹیروں کا مقابلہ کروں اور جب تک میں ان کو قتل نہ کر ڈالوں اس وقت تک نہ چھوڑوں کہ وہ جا کر اپنی قوم کو خبر دیں، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر رسول اللہ ہنس پڑے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپ کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں، آپ نے فرمایا: اے سلمہ! کیا تو یہ کرسکتا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو بزرگی عطا فرمائی، آپ نے فرمایا: اب تو وہ غطفان کے علاقہ میں ہوں گے اسی دوران علاقہ غطفان سے ایک آدمی آیا اور وہ کہنے لگا کہ فلاں آدمی نے ان کے لئے ایک اونٹ ذبح کیا تھا اور ابھی اس اونٹ کی کھال ہی اتار پائے تھے کہ انہوں نے کچھ غبار دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آگئے وہ لوگ وہاں (غطفان) سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے بہترین سواروں میں سے بہتر سوار حضرت قتادہ ہیں پیادوں میں سے بہتر حضرت سلمہ ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو حصے عطا فرمائے اور ایک سوار کا حصہ اور ایک پیادہ کا حصہ اور دونوں حصے اکٹھے مجھے عطا فرمائے پھر رسول اللہ ﷺ نے عضباء اونٹنی پر مجھے اپنے پیچھے بٹھایا اور ہم سب مدینہ منورہ واپس آگئے۔ دوران سفر انصار کا ایک آدمی جس سے دوڑنے میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا، وہ کہنے لگا، کیا کوئی مدینہ تک میرے ساتھ دوڑ لگانے والا ہے؟ وہ بار بار یہی کہتا رہا، جب میں نے اس کا چیلنج سنا تو میں نے کہا، کیا تجھے کسی بزرگ کی بزرگی کا لحاظ نہیں اور کیا تو کسی بزرگ سے ڈرتا نہیں؟ اس انصاری شخص نے کہا، نہیں سوائے رسول اللہ کے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے اجازت عطا فرمائی تاکہ میں اس آدمی سے دوڑ لگاؤں، آپ نے فرمایا: (اچھا) اگر تو چاہتا ہے، تو حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس انصاری سے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا پھر میں کود پڑا اور دوڑنے لگا اور پھر جب ایک یا دو چڑھائی باقی رہ گئی تو میں نے سانس لیا پھر میں اس کے پیچھے دوڑا پھر جب ایک یا دو چڑھا باقی رہ گئی تو پھر میں نے سانس لیا پھر میں دوڑا یہاں تک کہ اس انصاری سے جا کر مل گیا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور میں نے کہا، اللہ کی قسم! میں آگے بڑھ گیا اور پھر اس سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا، اس پر وہ ہنس پڑا کہنے لگا کہ میں بھی یہی سمجھتا ہوں، حتی کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
Top