مسند امام احمد - حضرت انس بن مالک (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 11590
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَتُوُفِّيَ الْغُلَامُ فَهَيَّأَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ الْمَيِّتَ وَقَالَتْ لِأَهْلِهَا لَا يُخْبِرَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ أَبَا طَلْحَةَ بِوَفَاةِ ابْنِهِ فَرَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ مَا فَعَلَ الْغُلَامُ قَالَتْ خَيْرٌ مِمَّا كَانَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِمْ عَشَاءَهُمْ فَتَعَشَّوْا وَخَرَجَ الْقَوْمُ وَقَامَتْ الْمَرْأَةُ إِلَى مَا تَقُومُ إِلَيْهِ الْمَرْأَةُ فَلَمَّا كَانَ آخِرُ اللَّيْلِ قَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ أَلَمْ تَرَ إِلَى آلِ فُلَانٍ اسْتَعَارُوا عَارِيَةً فَتَمَتَّعُوا بِهَا فَلَمَّا طُلِبَتْ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذَاكَ قَالَ مَا أَنْصَفُوا قَالَتْ فَإِنَّ ابْنَكَ كَانَ عَارِيَةً مِنْ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَإِنَّ اللَّهَ قَبَضَهُ فَاسْتَرْجَعَ وَحَمِدَ اللَّهَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآهُ قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا فَحَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ فَوَلَدَتْهُ لَيْلًا وَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمَلْتُهُ غُدْوَةً وَمَعِي تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ فَوَجَدْتُهُ يَهْنَأُ أَبَاعِرَ لَهُ أَوْ يَسِمُهَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ اللَّيْلَةَ فَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَعَكَ شَيْءٌ قُلْتُ تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ فَأَخَذَ بَعْضَهُنَّ فَمَضَغَهُنَّ ثُمَّ جَمَعَ بُزَاقَهُ فَأَوْجَرَهُ إِيَّاهُ فَجَعَلَ يَتَلَمَّظُ فَقَالَ حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِّهِ قَالَ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فَأَتَيْتُهُ وَعَلَيْهِ بُرْدَةٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَنَسٍ فَأَتَيْتُهُ وَعَلَيْهِ خَمِيصَةٌ لَهُ وَهُوَ فِي الْحَائِطِ يَسِمُ الظَّهْرَ الَّذِي قَدِمَ عَلَيْهِ فَقَالَ رُوَيْدَكَ أَفْرُغُ لَكَ قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِىٍّ فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ إِنَّ أَبَا طَلْحَةَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِتُّمَا عَرُوسَيْنِ قَالَ فَبَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي عُرْسِكُمَا وَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ كَيْفَ ذَاكَ الْغُلَامُ قَالَتْ هُوَ أَهْدَأُ مِمَّا كَانَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ تَزَوَّجَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ وَالْبَرَاءِ فَوَلَدَتْ لَهُ وَلَدًا وَكَانَ يُحِبُّهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِتُّمَا عَرُوسَيْنِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِكُمَا فَقَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا
حضرت انس بن مالک ؓ کی مرویات
حضرت انس ؓ سے مروی ہے حضرت ابوطلحہ ؓ کا ایک بیٹا بیمار تھا، حضرت ابوطلحہ ؓ مسجد کے لئے نکلے تو ان کے پیچھے ان کا بیٹا فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم ؓ نے اسے کپڑا اوڑھا دیا اور گھر والوں سے کہا کہ تم میں سے کوئی بھی ابوطلحہ ؓ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر نہ دے، چناچہ جب حضرت ابوطلحہ ؓ واپس آئے تو ان کے ساتھ مسجد سے ان کے کچھ دوست بھی آئے، حضرت ابوطلحہ ؓ نے بچے کے بارے پوچھا، انہوں نے بتایا کہ پہلے سے بہتر ہے، پھر ان کے سامنے رات کا کھانا لا کر رکھا سب نے کھانا کھایا، لوگ چلے گئے تو وہ ان کاموں میں لگ گئیں جو عورتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ جب رات کا آخری پہر ہوا تو انہوں نے حضرت ابوطلحہ ؓ سے کہا کہ اے ابوطلحہ! دیکھیں تو سہی فلاں لوگوں نے عاریۃً کوئی چیز لی، اس سے فائدہ اٹھاتے رہے جب ان سے واپسی کا مطالبہ ہوا تو وہ اس پر ناگواری ظاہر کرنے لگے، حضرت ابوطلحہ ؓ نے کہا یہ لوگ انصاف نہیں کر رہے، ام سلیم ؓ نے کہا کہ پھر تمہارا بیٹا بھی اللہ کی طرف سے عاریت تھا، جسے اللہ نے واپس لے لیا ہے اس پر انہوں نے " انا للہ وانا الیہ راجعون " کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ صبح ہوئی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا اللہ تم دونوں میاں بیوی کے لئے اس رات کو مبارک فرمائے، چناچہ وہ امید سے ہوگئیں، جب ان کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی تو وہ رات کا وقت تھا۔ انہوں نے اس وقت بچے کو گھٹی دینا اچھا نہ سمجھا اور یہ چاہا کہ اسے خود نبی ﷺ گھٹی دیں، چناچہ صبح کو میں اس بچے کو اٹھا کر اپنے ساتھ کچھ عجوہ کھجوریں لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ اپنے اونٹوں کو قطران مل رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آج رات ام سلیم کے یہاں بچہ پیدا ہوا، انہوں نے خود اسے گھٹی دینا مناسب نہ سمجھا اور چاہا کہ اسے آپ گھٹی دیں، نبی ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا عجوہ کھجوریں ہیں، نبی ﷺ نے ایک کھجور لے کر اسے منہ میں چبا کر نرم کیا اور تھوک جمع کر کے اس کے منہ میں ٹپکا دیا جسے وہ چاٹنے لگا، نبی ﷺ نے فرمایا کھجور انصار کی محبوب چیز ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس کا نام رکھ دیجئے، فرمایا اس کا نام عبداللہ ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
Top