مسند امام احمد - حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 1330
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ أَبُو النَّضْرِ قَالَ جَلَسَ إِلَيَّ شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فِي مَسْجِدِ الْبَصْرَةِ وَمَعَهُ صَحِيفَةٌ لَهُ فِي يَدِهِ قَالَ وَفِي زَمَانِ الْحَجَّاجِ فَقَالَ لِي يَا عَبْدَ اللَّهِ أَتَرَى هَذَا الْكِتَابَ مُغْنِيًا عَنِّي شَيْئًا عِنْدَ هَذَا السُّلْطَانِ قَالَ فَقُلْتُ وَمَا هَذَا الْكِتَابُ قَالَ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَهُ لَنَا أَنْ لَا يُتَعَدَّى عَلَيْنَا فِي صَدَقَاتِنَا قَالَ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ أَنْ يُغْنِيَ عَنْكَ شَيْئًا وَكَيْفَ كَانَ شَأْنُ هَذَا الْكِتَابِ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ مَعَ أَبِي وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ بِإِبِلٍ لَنَا نَبِيعُهَا وَكَانَ أَبِي صَدِيقًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ التَّيْمِيِّ فَنَزَلْنَا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ أَبِي اخْرُجْ مَعِي فَبِعْ لِي إِبِلِي هَذِهِ قَالَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَلَكِنْ سَأَخْرُجُ مَعَكَ فَأَجْلِسُ وَتَعْرِضُ إِبِلَكَ فَإِذَا رَضِيتُ مِنْ رَجُلٍ وَفَاءً وَصِدْقًا مِمَّنْ سَاوَمَكَ أَمَرْتُكَ بِبَيْعِهِ قَالَ فَخَرَجْنَا إِلَى السُّوقِ فَوَقَفْنَا ظُهْرَنَا وَجَلَسَ طَلْحَةُ قَرِيبًا فَسَاوَمَنَا الرِّجَالُ حَتَّى إِذَا أَعْطَانَا رَجُلٌ مَا نَرْضَى قَالَ لَهُ أَبِي أُبَايِعُهُ قَالَ نَعَمْ رَضِيتُ لَكُمْ وَفَاءَهُ فَبَايِعُوهُ فَبَايَعْنَاهُ فَلَمَّا قَبَضْنَا مَا لَنَا وَفَرَغْنَا مِنْ حَاجَتِنَا قَالَ أَبِي لِطَلْحَةَ خُذْ لَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَنْ لَا يُتَعَدَّى عَلَيْنَا فِي صَدَقَاتِنَا قَالَ فَقَالَ هَذَا لَكُمْ وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ قَالَ عَلَى ذَلِكَ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ عِنْدِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابٌ فَخَرَجَ حَتَّى جَاءَ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ صَدِيقٌ لَنَا وَقَدْ أَحَبَّ أَنْ تَكْتُبَ لَهُ كِتَابًا لَا يُتَعَدَّى عَلَيْهِ فِي صَدَقَتِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا لَهُ وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ عِنْدِي مِنْكَ كِتَابٌ عَلَى ذَلِكَ قَالَ فَكَتَبَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْكِتَابَ آخِرُ حَدِيثِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حضرت طلحہ بن عبیدالہ ؓ کی مرویات
ابوالنضر کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں بصرہ کی ایک مسجد میں بنو تمیم کے ایک بزرگ میرے پاس آکر بیٹھ گئے، ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ بھی تھا، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اے بندہ خدا! تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ خط اس بادشاہ کے سامنے مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ میں نے پوچھا کہ یہ خط کیسا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ نبی ﷺ کا فرمان ہے جو آپ ﷺ نے ہمارے لئے لکھوایا تھا کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، میں نے کہا کہ بخدا! مجھے تو نہیں لگتا کہ اس خط سے آپ کو کوئی فائدہ ہو سکے گا (کیونکہ حجاج بہت ظالم ہے) البتہ یہ بتائیے کہ اس خط کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، اس وقت میں نوجوان تھا، ہم لوگ اپنا ایک اونٹ فروخت کرنا چاہتے تھے، میرے والد حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کے دوست تھے، اس لئے ہم انہی کے یہاں جاکر ٹھہرے۔ میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ چل کر اس اونٹ کو بیچنے میں میری مدد کیجئے، انہوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے خریدوفروخت کرے، البتہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا، آپ اپنا اونٹ لوگوں کے سامنے پیش کریں، جس شخص کے متعلق مجھے یہ اطمینان ہوگا کہ یہ قیمت ادا کردے گا اور سچا ثابت ہوگا، میں آپ کو اس کے ہاتھ فروخت کرنے کا کہہ دوں گا۔ چناچہ ہم نکل کر بازار پہنچے اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئے، حضرت طلحہ ؓ قریب ہی بیٹھ گئے، کئی لوگوں نے آکر بھاؤ تاؤ کیا، حتی کہ ایک آدمی آیا جو ہماری منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار تھا، میرے والد صاحب نے ان سے پوچھا کہ اس کے ساتھ معاملہ کرلوں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور فرمایا کہ مجھے اطمینان ہے کہ یہ تمہاری قیمت پوری پوری ادا کردے گا۔ اس لئے تم یہ اونٹ اس کے ہاتھ فروخت کردو، چناچہ ہم نے اس کے ہاتھ وہ اونٹ فروخت کردیا۔ جب ہمارے قبضے میں پیسے آگئے اور ہماری ضرورت پوری ہوگئی تو میرے والد صاحب نے حضرت طلحہ ؓ سے کہا کہ نبی ﷺ سے اس مضمون کا ایک خط لکھوا کر ہمیں دے دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، اس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ تمہارے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں اسی وجہ سے چاہتا تھا کہ نبی ﷺ کا کوئی خط میرے پاس ہونا چاہیے۔ بہرحال! حضرت طلحہ رضٰ اللہ عنہ ہمارے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ صاحب جن کا تعلق ایک دیہات سے ہے ہمارے دوست ہیں، ان کی خواہش ہے کہ آپ انہیں اس نوعیت کا ایک مضمون لکھوا دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ان پر زیادتی نہ کی جائے، فرمایا یہ ان کے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی، میرے والد نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ کا کوئی خط اس مضمون پر مشتمل میرے پاس ہو، اس پر نبی ﷺ نے ہمیں یہ خط لکھوا کردیا تھا۔
Top