حضرت عمر فاروق ؓ کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنی زندگی میں جو آخری حج کیا، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اپنی سواری کے پاس واپس آئے، میں انہیں پڑھایا کرتا تھا، انہوں نے مجھے اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا، اس وقت ہم لوگ منیٰ میں تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف آتے ہی کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اگر حضرت عمر ؓ فوت ہوگئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کرلوں گا۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ آج رات کو میں کھڑا ہو کر لوگوں کو اس گروہ سے بچنے اور احتیاط کرنے کی تاکید کروں گا جو خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں نے ان سے عرض کیا امیرالمومنین! آپ ایسا نہ کیجئے، کیونکہ حج میں ہر طرح سے لوگ شامل ہوتے ہیں، شرپسند بھی ہوتے ہیں اور گھٹیا سوچ رکھنے والے بھی، جب آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہیں گے تو یہ آپ پر غالب آجائیں گے، مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اگر کوئی بات کہیں گے تو یہ لوگ اسے اڑا لے جائیں گے، صحیح طرح اسے یاد نہ رکھ سکیں گے اور صحیح محل پر اسے محمول نہ کرسکیں گے، البتہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں، جو کہ دارالہجرۃ اور دارالسنۃ ہے اور خالصۃ علماء اور معززین کا گہوارہ ہے، تب آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیں اور خوب اعتماد سے کہیں، وہ لوگ آپ کی بات کو سمجھیں گے بھی اور اسے صحیح محل پر بھی محمول کریں گے، حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا اگر میں مدینہ منورہ صحیح سالم پہنچ گیا تو سب سے پہلے لوگوں کے سامنے یہی بات رکھوں گا۔ ذی الحجہ کے آخر میں جب ہم مدینہ منورہ پہنچے توجمعہ کے دن میں اندھوں سے ٹکراتا ہوا صبح ہی مسجد میں پہنچ گیا، راوی نے اندھوں سے ٹکرانے کا مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق ؓ کسی خاص وقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی گرمی سردی وغیرہ کو خاطر میں لاتے تھے (جب دل چاہتا آکر منبر پر رونق افروز ہوجاتے) بہرحال! میں نے منبر کی دائیں جانب حضرت سعید بن زید ؓ کو بیٹھے ہوئے پایا جو مجھ سے سبقت لے گئے تھے، میں بھی ان کے برابر جا کر بیٹھ گیا اور میرے گھٹنے ان کے گھٹنے سے رگڑ کھا رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لاتے ہوئے نظر آئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ آج یہ اس منبر سے ایسی بات کہیں گے جو اس سے پہلے انہوں نے کبھی نہ کہی ہوگی، حضرت سعید بن زید ؓ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ کوئی ایسی بات کہیں جو اب سے پہلے نہ کہی ہو، اسی اثناء میں حضرت عمر فاروق ؓ آکر منبر پر تشریف فرما ہوگئے۔ جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو سب سے پہلے کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ کی حمدوثناء کی، پھر امابعد کہہ کر فرمایا لوگو! میں آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں جسے کہنا میرے لئے ضروری ہوگیا ہے، کچھ خبر نہیں کہ شاید یہ میری موت کا پیش خیمہ ہو، اس لئے جو شخص اسے یاد رکھ سکے اور اچھی طرح سمجھ سکے، اسے چاہیے کہ یہ بات وہاں تک لوگوں کو پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری جاسکتی ہو اور جو شخص اسے یاد نہ رکھ سکے، اس کے لئے مجھ پر جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حق کے ساتھ بھیجا، ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور ان پر نازل ہونے والے احکام میں رجم کی آیت بھی شامل تھی، جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا، نیز نبی ﷺ نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی اور ان کے بعد ہم نے بھی یہ سزا جاری کی، مجھے خطرہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہمیں تو کتاب اللہ میں رجم کی آیت نہیں ملتی اور وہ اللہ کے نازل کردہ ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔ یاد رکھو! اگر کوئی مرد یا عورت شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ بھی موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہو، یا وہ اعتراف جرم کرلے تو کتاب اللہ میں اس کے لئے رجم کا ہونا ایک حقیقت ہے، یاد رکھو! ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے اعراض کر کے کسی دوسرے کی طرف نسبت نہ کرو کیونکہ ایسا کرنا کفر ہے۔ یاد رکھو! جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، مجھے اس طرح مت بڑھانا، میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں، اس لئے تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہی کہو۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ لوگوں میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب عمر مرجائے گا تو ہم فلاں شخص کی بیعت کرلیں گے، کوئی شخص اس بات سے دھوکہ میں نہ رہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی بیعت اچانک اور جلدی میں ہوئی تھی، ہاں! ایسا ہی ہوا تھا، لیکن اللہ نے اس کے شر سے ہماری حفاظت فرمائی، لیکن اب تم میں حضرت صدیق اکبر ؓ جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جس کی طرف گردنیں اٹھ سکیں۔ ہمارا یہ واقعہ بھی سن لو کہ جب نبی ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت علی، حضرت زبیر ؓ، حضرت فاطمہ ؓ کے گھر میں رہے، جبکہ انصار سب سے کٹ کر مکمل طور پر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین حضرت صدیق اکبر ؓ کے پاس آکر اکٹھے ہونے لگے، میں نے حضرت صدیق اکبر ؓ سے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ انصاری بھائیوں کی طرف چلیے۔ چناچہ ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے! اور ہم سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آپ ان کے پاس نہ جائیں تو بہتر ہے، آپ اپنا معاملہ خود طے کرلیجئے، میں نے کہا کہ نہیں! ہم ضروران کے پاس جائیں گے۔ چناچہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ گئے، وہاں تمام انصار اکٹھے تھے اور ان کے درمیان میں ایک آدمی چادر اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوا تھا، میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ ہیں، میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ بیمار ہیں۔ بہرحال! جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا اور اللہ کی حمدوثنا کرنے کے بعد کہنے لگا کہ ہم اللہ کے انصار و مددگار ہیں اور اسلام کا لشکر ہیں اور اے گروہ مہاجرین! تم ہمارا ایک گروہ ہو، لیکن اب تم ہی میں سے کچھ ہماری جڑیں کاٹنے لگے ہیں، وہ ہماری اصل سے سے جدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہمیں خلافت سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا تو میں نے بات کرنا چاہی کیونکہ میں اپنے دل میں ایک بڑی عمدہ تقریر سوچ کر آیا تھا، میرا ارادہ یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر ؓ کے کچھ کہنے سے پہلے میں اپنی بات کہہ لوں، میں نے اس میں بعض سخت باتیں بھی شامل کر رکھی تھیں لیکن حضرت صدیق اکبر ؓ مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار تھے، انہوں نے مجھے روک دیا، میں نے انہیں ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ وہ مجھ سے بڑے عالم اور زیادہ پروقار تھے۔ بخدا! میں نے میں نے اپنے ذہن میں جو تقریر سوچ رکھی تھی، حضرت صدیق اکبر ؓ نے اس کا ایک کلمہ بھی نہ چھوڑا اور فی البدیہ وہ سب کچھ بلکہ اس سے بہتر کہہ دیا جو میں کہنا چاہتا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تقریر ختم کرلی، اس تقریر کے دوران انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے اپنی جو نیکیاں ذکر کی ہیں، آپ ان کے اہل اور حقدار ہیں، لیکن خلافت کو پورا عرب قریش کے اسی قبیلے کا حق سمجھتا ہے کیونکہ پورے عرب میں حسب نسب اور جگہ کے اعتبار سے یہ لوگ مرکز شمار ہوتے ہیں، میں آپ کے لئے ان دو میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں، آپ جس کو مرضی منتخب کرلیں، یہ کہہ کر انہوں نے میرا اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے حضرت ابوبکر ؓ کی پوری تقریر میں یہ بات اچھی نہ لگی، بخدا! میں یہ سمجھتا تھا کہ اگر مجھے آگے بڑھایا جائے تو میری گردن اڑا دی جائے، مجھے یہ بہت بڑا گناہ محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک ایسی قوم کا حکمران بنوں جس میں حضرت صدیق اکبر ؓ جیسا شخص موجود ہو، البتہ اب موت کے وقت آکر میرا مزاج بدل گیا ہے (یہ کسر نفسی کے طور پر فرمایا گیا ہے) انصار کے ایک آدمی نے کہا کہ مجھے ان معاملات کا خوب تجربہ ہے اور میں اس کے بہت سے پھلوں کا بوجھ لادے رہاہوں، اے گروہ قریش! ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، اس پر شور و شغب بڑھ گیا، آوازیں بلند ہونے لگیں اور مجھے خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں جھگڑا نہ ہوجائے، یہ سوچ کر میں نے فورا کہا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کی بیعت کرلی، یہ دیکھ کر مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور انصار نے بھی بیعت کرلی اور ہم وہاں سے کود کر آگئے اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ وہیں رہ گئے۔ کسی نے کہا کہ تم نے سعد بن عبادہ ؓ کو مار ڈالا، میں نے کہا اللہ نے ایسا کیا ہوگا (ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ) اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا بخدا! آج ہمیں حضرت صدیق اکبر ؓ کی بیعت کے واقعے سے زیادہ مضبوط حالات کا سامنا نہیں ہے، ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لوگ جدا ہوگئے اور اس وقت کوئی خلیفہ نہ ہوا تو وہ کسی سے بیعت کرلیں گے، اب یا تو ہم کچھ ناپسندیدہ فیصلوں پر انہیں اپنے اتباع پر قائم کریں، یا پھر ہم ان کی مخالفت میں احکام جاری کریں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں فساد ہوگا۔ اس لئے یاد رکھو! جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے گا اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی وہ اس شخص کے ہاتھ پر صحیح ہوگی جس سے بیعت لی گئی ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ دونوں قتل نہ ہوجائیں۔