مسند امام احمد - حضرت ابوذرغفاری (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 20380
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي السَّلِيلِ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ الرِّيَاحِيِّ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ فَلَمْ أَجِدْهُ وَرَأَيْتُ الْمَرْأَةَ فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ هُوَ ذَاكَ فِي ضَيْعَةٍ لَهُ فَجَاءَ يَقُودُ أَوْ يَسُوقُ بَعِيرَيْنِ قَاطِرًا أَحَدَهُمَا فِي عَجُزِ صَاحِبِهِ فِي عُنُقِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قِرْبَةٌ فَوَضَعَ الْقِرْبَتَيْنِ قُلْتُ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا كَانَ مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَاهُ مِنْكَ وَلَا أَبْغَضَ أَنْ أَلْقَاهُ مِنْكَ قَالَ لِلَّهِ أَبُوكَ وَمَا يَجْمَعُ هَذَا قَالَ قُلْتُ إِنِّي كُنْتُ وَأَدْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكُنْتُ أَرْجُو فِي لِقَائِكَ أَنْ تُخْبِرَنِي أَنَّ لِي تَوْبَةً وَمَخْرَجًا وَكُنْتُ أَخْشَى فِي لِقَائِكَ أَنْ تُخْبِرَنِي أَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لِي فَقَالَ أَفِي الْجَاهِلِيَّةِ قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ثُمَّ عَاجَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْمَرْأَةِ فَأَمَرَ لِي بِطَعَامٍ فَالْتَوَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ أَمَرَهَا فَالْتَوَتْ عَلَيْهِ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا قَالَ إِيهٍ دَعِينَا عَنْكِ فَإِنَّكُنَّ لَنْ تَعْدُونَ مَا قَالَ لَنَا فِيكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ وَمَا قَالَ لَكُمْ فِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَرْأَةُ ضِلَعٌ فَإِنْ تَذْهَبْ تُقَوِّمُهَا تَكْسِرْهَا وَإِنْ تَدَعْهَا فَفِيهَا أَوَدٌ وَبُلْغَةٌ فَوَلَّتْ فَجَاءَتْ بِثَرِيدَةٍ كَأَنَّهَا قَطَاةٌ فَقَالَ كُلْ وَلَا أَهُولَنَّكَ إِنِّي صَائِمٌ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَجَعَلَ يُهَذِّبُ الرُّكُوعَ وَيُخَفِّفُهُ وَرَأَيْتُهُ يَتَحَرَّى أَنْ أَشْبَعَ أَوْ أُقَارِبَ ثُمَّ جَاءَ فَوَضَعَ يَدَهُ مَعِي فَقُلْتُ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ فَقَالَ مَا لَكَ فَقُلْتُ مَنْ كُنْتُ أَخْشَى مِنْ النَّاسِ أَنْ يَكْذِبَنِي فَمَا كُنْتُ أَخْشَى أَنْ تَكْذِبَنِي قَالَ لِلَّهِ أَبُوكَ إِنْ كَذَبْتُكَ كِذْبَةً مُنْذُ لَقِيتَنِي فَقَالَ أَلَمْ تُخْبِرْنِي أَنَّكَ صَائِمٌ ثُمَّ أَرَاكَ تَأْكُلُ قَالَ بَلَى إِنِّي صُمْتُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ فَوَجَبَ لِي أَجْرُهُ وَحَلَّ لِي الطَّعَامُ مَعَكَ
حضرت ابوذرغفاری ؓ کی مرویات
نعیم بن قعنب ریاحی (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ نہیں ملے میں نے ان کی اہلیہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی زمین میں گئے ہیں تھوڑی دیر میں وہ دو اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آگئے ان میں سے ایک اونٹ کا لعاب اپنے ساتھی کی سرین پر گر رہا تھا اور ان میں سے ہر ایک کی گردن میں ایک ایک مشکیزہ تھا انہوں نے وہ دونوں مشکیزے اتارے تو میں نے عرض کیا اے ابوذر! مجھے آپ کی نسبت کسی دوسرے سے ملنے کی محبت تھی اور نہ ہی کسی سے اتنی نفرت تھی جتنی آپ سے ملنے کی تھی انہوں نے فرمایا بھئی! یہ دونوں چیزیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بچی کو زندہ درگور کیا تھا مجھے آپ سے ملاقات کرنے میں یہ امید تھی کہ آپ مجھے توبہ اور بچاؤ کا کوئی راستہ بتائیں گے (اس لئے آپ سے ملنے کی خواہش تھی) لیکن آپ سے ملنے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ میرے لئے توبہ کا کوئی راستہ نہیں ہے حضرت ابوذر ؓ نے پوچھا کیا یہ کام تم سے زمانہ جاہلیت میں ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا اللہ نے گذشتہ سارے گناہ معاف کردیئے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے سر کے اشارے سے اپنی بیوی کو میرے لئے کھانا لانے کا حکم دیا لیکن اس نے توجہ نہ دی انہوں نے دوبارہ اس سے کہا لیکن اس نے اس مرتبہ بھی توجہ نہ دی یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا ہم سے پیچھے ہی رہو تم لوگ اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتیں جو نبی کریم ﷺ نے تمہارے متعلق ہم سے بیان فرما دی تھیں میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے آپ سے ان کے متعلق کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے یہ فرمان ذکر کیا کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے یونہی چھوڑو گے تو اس ٹیڑھے پن اور بیوقوفی کے ساتھ ہی گذارہ کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر وہ واپس چلی گئی اور تھوڑی دیر میں " قطاہ " کی طرح بنا ہوا ثرید لے آئی، حضرت ابوذر ؓ نے مجھ سے فرمایا کھاؤ اور میری فکر نہ کرنا کیونکہ میں روزے سے ہوں پھر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے وہ اچھے لیکن ہلکے رکوع کرنے لگے میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سیراب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ آئے اور میرے ساتھ کھانے میں اپنا ہاتھ بھی شامل کرلیا میں نے یہ دیکھ کر " اناللہ " پڑھا انہوں نے پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ عام آدمی کے متعلق تو مجھے یہ اندیشہ ہوسکتا تھا کہ وہ مجھ سے غلط بیانی کرسکتا ہے لیکن آپ کے متعلق یہ اندیشہ نہیں تھا انہوں نے فرمایا بخدا! جب سے تمہاری مجھ سے ملاقات ہوئی ہے میں نے تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولا میں نے کہا کہ کیا آپ ہی نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ آپ روزے سے ہیں پھر میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کھا بھی رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے اس مہینے میں تین روزے رکھ لئے تھے جن کا اجر میرے لئے ثابت ہوچکا اور اب تمہارے ساتھ کھانا میرے لئے حلال ہے۔
Top