مسند امام احمد - حضرت ابوامامہ صدی بن عجلان ابن عمروبن وہب باہلی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 21265
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ قَالَ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ نَحْوَ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ قَالَ فَكَانَ النَّاسُ يَمْشُونَ خَلْفَهُ قَالَ فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ فَجَلَسَ حَتَّى قَدَّمَهُمْ أَمَامَهُ لِئَلَّا يَقَعَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنْ الْكِبْرِ فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ إِذَا بِقَبْرَيْنِ قَدْ دَفَنُوا فِيهِمَا رَجُلَيْنِ قَالَ فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ دَفَنْتُمْ هَاهُنَا الْيَوْمَ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ فُلَانٌ وَفُلَانٌ قَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ الْآنَ وَيُفْتَنَانِ فِي قَبْرَيْهِمَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَ ذَاكَ قَالَ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَتَنَزَّهُ مِنْ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ وَأَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا ثُمَّ جَعَلَهَا عَلَى الْقَبْرَيْنِ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَلِمَ فَعَلْتَ قَالَ لِيُخَفَّفَنَّ عَنْهُمَا قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَحَتَّى مَتَى يُعَذِّبُهُمَا اللَّهُ قَالَ غَيْبٌ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ قَالَ وَلَوْلَا تَمَزُّعُ قُلُوبِكُمْ أَوْ تَزَيُّدُكُمْ فِي الْحَدِيثِ لَسَمِعْتُمْ مَا أَسْمَعُ
حضرت ابوامامہ صدی بن عجلان ابن عمروبن وہب باہلی ؓ کی مرویات
حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سخت گرمی کی موسم میں نبی کریم ﷺ بقیع غرقد کے پاس سے گذرے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کے پیچھے چل رہے تھے نبی کریم ﷺ نے جب جوتیوں کی آواز سنی تو دل میں اس کا خیال پیدا ہوا چناچہ نبی کریم ﷺ بیٹھ گئے اور انہیں آگے روانہ کردیا تاکہ دل میں کسی قسم کی بڑائی کا کوئی خیال نہ آئے، اس کے بعد وہاں سے گذرتے ہوئے نبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گذرے جہاں دو آدمیوں کو دفن کیا گیا تھا نبی کریم ﷺ وہاں رک گئے اور پوچھا کہ آج تم نے یہاں کسے دفن کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا یا رسول اللہ! ﷺ فلاں فلاں آدمی کو، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس وقت انہیں ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور ان کی آزمائش ہو رہی ہے، صحابہ کرام ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! ﷺ اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک تو پیشاب کے قطرات سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے کسی درخت کی ایک تر شاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں قبروں پر اسے لگا دیا صحابہ کرام ؓ نے پوچھا اے اللہ کے نبی! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوجائے صحابہ کرام ؓ نے پوچھا اے اللہ کے نبی! انہیں کب تک عذاب میں مبتلا رکھا جائے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اگر تمہارے دلوں میں بات خلط ملط نہ ہوجاتی یا تمہارا آپس میں اس پر بحث کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو جو آوازیں میں سن رہا ہوں وہ تم بھی سنتے۔
Top