سنن النسائی - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 313
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قال عُمَرُ:‏‏‏‏ لَا تُصَلِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَمَا تَذْكُرُ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ. وَسَلَمَةُ شَكَّ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْرِي فِيهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ أَوْ إِلَى الْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ نُوَلِّيكَ مَا تَوَلَّيْتَ.
مقیم ہونے کی حالت میں تیمم
عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر ؓ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا، (کیا کروں؟ ) عمر ؓ نے کہا: (غسل کئے بغیر) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر ؓ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ دونوں ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہوگئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، اور رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی اکرم کے پاس آئے، اور آپ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا ، پھر آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا - سلمہ کو شک ہے، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس میں مسح کا ذکر دونوں کہنیوں تک ہے یا دونوں ہتھیلیوں تک - (عمار ؓ کی بات سن کر) عمر ؓ نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التیمم ٤ (٣٣٨)، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٨)، سنن ابی داود/الطھارة، سنن الترمذی/فیہ ١١٠ (١٤٤)، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩١ (٥٦٩)، (تحفة الأشراف ١٠٣٦٢)، مسند احمد ٤/٢٦٣، ٢٦٥، ٣١٩، ٣٢٠، سنن الدارمی/الطہارة ٦٦ (٧٧٢) مختصرًا، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ٣١٧، ٣١٨، ٣١٩، ٣٢٠ (صحیح )
وضاحت: ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ مجھے یہ یاد نہیں اس لیے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تم اپنی ذمہ داری پر اسے بیان کرنا چاہو تو کرو، عمر اور عبداللہ بن مسعود ؓ دونوں کی رائے یہ ہے کہ جنبی کے لیے تیمم درست نہیں، ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام اور اکثر علماء اور مجتہدین کا قول ہے کہ تیمم محدث (جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو) اور جنبی (جسے احتلام ہوا ہو) دونوں کے لیے ہے، اس قول کی تائید کئی مشہور حدیثوں سے ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 312
It was narrated from Ibn ‘Abdur-Rahman bin Abza from his father that a man came to ‘Umar and said: “I have become Junub and I do not have any water.” ‘Umar said: “Do not pray.” But ‘Ammar bin Yasir said: “Commander of the Believers! Don’t you remember when you and I were on a campaign and we became Junub and could not find water? You did not pray, but I rolled in the dust and prayed. Then we came to the Prophet ﷺ and told him about that, and he said: ‘It would have been sufficient for you (to do this),’ then the Prophet ﷺ struck his hands on the ground and blew on them, then wiped his face and hands with them” — (one of the narrators) Salamah was uncertain and did not know whether that was up to the elbows or just the hands. And ‘Umar said: “We will let you bear the burden of what you took upon yourself.” (Sahih)
Top