سنن النسائی - فئی تقسیم کر نے سے متعلق - حدیث نمبر 4138
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى:‏‏‏‏ لِمَنْ تُرَاهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ لَنَا لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَأَبَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ نَقْبَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُعِينَ نَاكِحَهُمْ،‏‏‏‏ وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ،‏‏‏‏ وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ،‏‏‏‏ وَأَبَى أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ.
مال فئے کی تقسیم
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لیے) نکلا ٢ ؎ تو اس نے ابن عباس ؓ کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ (مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ (اب) کس کو ملنا چاہیئے ٣ ؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر ؓ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کردیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجہاد ٤٨ (١٨١٢)، سنن ابی داود/الخراج ٢٠(٢٩٨٢)، سنن الترمذی/السیر ٨ (١٥٥٦)، (تحفة الأشراف: ٦٥٥٧)، مسند احمد (١/٢٤٨، ٢٩٤، ٣٠٨، ٣٢٠، ٣٤٤، ٣٤٩، ٣٥٢)، سنن الدارمی/السیر ٣٢ (٢٥١٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ غنیمت میں سے بھی رسول اللہ ﷺ کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔ ٢ ؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر ؓ کو قتل کیا تھا۔ ٣ ؎: رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟ ابن عباس ؓ کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیئے، جب کہ عمر ؓ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر ؓ کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4133
It was narrated from Yazid bin Hurmuz that: when Najdah Al-Haruriyyah rebelled during the Fitnah of Ibn Zubayr, he sent word to Ibn Abbas asking him about the share of the relatives (of the Messenger of Allah) -to whom did he think it should be given? He replied: "It is for us, because of our blood ties to the Messenger of Allah allocated it to them, but Umar offered us something we thought was less than what was our due, and we refused to accept it. What he offered to them who wanted to get married, and to help the debtors pay off their debts, and he gave to their indigent. But he refused to give them more than that.
Top