سنن النسائی - کتاب اداب القضاة - حدیث نمبر 5424
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ.
فیصلہ کو کیا چیز توڑتی ہے؟
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ٥٤٠٣ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: تو کیا وہ پانے والے کے لیے ہر حال میں حلال ہوگا؟ نہیں، خود جب نبی اکرم ﷺ کے فیصلے پر ملنے سے حلال نہیں ہوسکتا، (اگر حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو دوسرے کسی قاضی کے فیصلے سے کیسے جائز ہوسکتا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملے میں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس طرح کے فیصلے حرام کو حلال، اور حلال کو حرام نہیں کرسکتے، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے خود اپنے فیصلے پر یہ عرض کیا کہ حقیقت میں غلط فیصلہ پر عمل آدمی کو جہنم پہنچا سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 5422
It was narrated that Umm Salamah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: You refer your disputes to me, but I am only human. And some of you may be more eloquent in arguing their case than others, and I may pass judgment on the basis of what I hear. If I pass judgment in favor of one of you against his brothers rights, then it is a piece of the fire that I am giving him.
Top