سنن الترمذی - تقدیر کا بیان - حدیث نمبر 2139
حدیث نمبر: 2139
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضُّرَيْسِ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ سَلْمَانَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الضُّرَيْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَوْدُودٍ اثْنَانِ:‏‏‏‏ أَحَدُهُمَا يُقَالُ لَهُ فِضَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ اسْمُهُ فِضَّةٌ بَصْرِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا بَصْرِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُ مَدَنِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
اس بارے میں کہ تقدیر کو صرف دعا ہی لوٹا سکتی ہے
سلمان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ١ ؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے، ٣ - ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں، ٤ - ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے، ایک کو فضہ کہا جاتا ہے، اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے، ان کا نام فضہ ہے اور دوسرے ابومودود کا نام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے، ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے، دونوں ایک ہی دور میں تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ مؤالف (تحفة الأشراف: ٤٥٠٢) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: «قضاء» سے مراد امر مقدر ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے: مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بےحد موثر ہے، یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے: مراد یہ ہے کہ دعا سے قضاء کا سہل و آسان ہوجانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہوگا کہ قضاء نازل ہی نہیں ہوئی، اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضاء نازل ہوچکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ ٢ ؎: عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے، نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے، مثلاً لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہوگی اور حج و عمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہوگی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یا نہیں، اور علم الٰہی میں رد و بدل اور تغیر نہیں ہوسکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (154)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2139
Sayyidina Salman (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, ‘Nothing averts the decree except supplication and nothing but piety prolongs life.” [Ahmed 22476] --------------------------------------------------------------------------------
Top