سنن الترمذی - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1039
حدیث نمبر: 1039
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا كَمَا يُصَفُّ عَلَى الْمَيِّتِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ كَمَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو.
نبی کریم ﷺ کا نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنا
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم لوگوں سے فرمایا: تمہارے بھائی نجاشی ١ ؎ کا انتقال ہوگیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو ۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے، ٣- ابومہلب کا نام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے، ٤- اس باب میں ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٧) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٥) (تحفة الأشراف: ١٠٨٨٩) مسند احمد (٤/٤٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٣) سنن النسائی/الجنائز ٥٧ (١٩٤٨) مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٤١، ٤٤٦) من غیر ہذا الوجہ۔
وضاحت: ١ ؎: نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھا جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجر تھا اسی بادشاہ کے دور میں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی، نبی اکرم ﷺ نے ٦ ھ کے آخر یا محرم ٧ ھ میں نجاشی کو عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور جعفر بن ابی طالب ؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوہ تبوک ٩ ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔ ٢ ؎: اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے، نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول امام احمد بن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تعامل امت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1535)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1039
Sayyidina Imram ibn Husayn narrated that Allah’s Messenger ﷺ said to them, “Your brother, the Najashi (Negus) has died. So stand up and pray over him.” They stood up and arranged themselves in rows as are arranged for the dead, and they prayed over him (the funeral salah) as is prayed over the dead. [Ahmed19912, Muslim 953, Nisai 1942]
Top