سنن الترمذی - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1077
حدیث نمبر: 1077
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ زَيْدٍ وَهُوَ:‏‏‏‏ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ وَوَضَعَ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ عَلَى الْجَنَازَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَذُكِرَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ:‏‏‏‏ لَا يَقْبِضُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ . وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقْبِضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ كَمَا يَفْعَلُ فِي الصَّلَاةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ يَقْبِضُ أَحَبُّ إِلَيَّ.
نماز جنازہ میں ہاتھ اٹھانا
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع یدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٣- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا، یہ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ١ ؎، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں: صرف پہلی بار اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ٢ ؎، ٥- ابن مبارک کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو نہیں پکڑے گا، ٦- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری نماز میں کرتا ہے، ٧-
امام ترمذی کہتے ہیں: ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ١٣١١٧) (حسن) (سند میں ابو فردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، دیکھئے احکام الجنائز: ١١٥، ١١٦)
وضاحت: ١ ؎: ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم جب نماز جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر میں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمر بن شبہ حدثنا یزید بن ہارون انبأنا یحییٰ بن سعید عن نافع عن ابن عمروقال ہکذا … رفعہ عمر بن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اور یزید بن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ٢ ؎: ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ جنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے پھر ایسا نہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن الأحكام (115 - 116)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1077
Sayyidina Abu Hurayrah narrated that once Allah’s Messenger ﷺ called Allah u Akbar in the funeral salah, he raised his hands at the first takbir and then placed the right hand over the left. --------------------------------------------------------------------------------
Top