سنن الترمذی - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 998
حدیث نمبر: 998
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ:‏‏‏‏ هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ.
اہل میت کے لئے کھانا پکانا
عبداللہ بن جعفر ؓ کہتے ہیں کہ جب جعفر طیار کے مرنے کی خبر آئی ١ ؎ تو نبی اکرم نے فرمایا: جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم میت کے گھر والوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے، ٣- جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں۔ ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجنائز ٣٠ (٣١٣٢)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٩ (١٦١٠) (تحفة الأشراف: ٥٢١٧) (حسن)
وضاحت: ١ ؎: جعفر بن ابی طالب ؓ کی شہادت ٨ ھ میں غزوہ موتہ میں ہوئی تھی، ان کی موت یقیناً سب کے لیے خاص کر اہل خانہ کے لیے رنج و غم لے کر آئی۔ ٢ ؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانا بھیج دیں۔ مگر آج کے مبتدعین نے معاملہ الٹ دیا، تیجا، قل، ساتویں اور چالیسویں جیسی ہندوانہ رسمیں ایجاد کر کے میت کے ورثاء کو خوب لوٹا جاتا ہے، «العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات»۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1610)، المشکاة (1739)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 998
Sayyidina Abdullah ibn Ja’far i said : When news arrived of the martyrdom of (Sayyidina) Ja’far (RA) the Prophet ﷺ said, “Prepare meal for the family of Jafar, for, they have heard what occupies them.” [Ahmed1751, Abu Dawud 3132, Ibn e Majah 1610]
Top