سنن الترمذی - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 1604
حدیث نمبر: 1604
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاعْتَصَمَ نَاسٌ بِالسُّجُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلِمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَرَايَا نَارَاهُمَا ،‏‏‏‏
مشرکین میں رہنے کی کراہت۔
جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی، نبی اکرم کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا: میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے ، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آخر کیوں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیئے کہ) وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ١٠٥ (٢٦٤٥)، سنن النسائی/القسامة ٢٦ (٤٧٨٤)، (تحفة الأشراف: ٣٢٢٧) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، دیکھئے: الارواء: رقم ١٢٠٧ )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہوجائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں، اور دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق مشرکین کے گھروں اور علاقوں سے ہجرت کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلام اور کفر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آدھی دیت کا حکم اس لیے دیا کیونکہ باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بطور سزا ساقط ہوگئی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون الأمر بنصف العقل، الإرواء (1207)، صحيح أبي داود (2377)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1604
Sayyidina Jarir ibn Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ sent an expedition to Khath’am. Some people prostrated and sought refuge, so the Muslims hurried to slay them, When the Prophet ﷺ learnt of it, he commanded that half of bloodwit should be paid for them. He said, “I am absolved of all the Muslims who reside among the polytheists”. They said, “O Messenger of Allah ﷺ why?” He said, “Let them not see the fire of one another.” (This is how far the Muslims must stay from them). [Abu Dawud 2645]
Top