سنن الترمذی - حج کا بیان - حدیث نمبر 822
حدیث نمبر: 822
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ،عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ. قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
تمتع کے بارے میں
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے حج تمتع کیا ١ ؎ اور ابوبکر، عمر اور عثمان ؓ نے بھی ٢ ؎ اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ ؓ ہیں ٣ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف و ٣٤ (١٢٥١)، و سنن ابی داود/ المناسک ٢٤ (١٧٩٥)، وسنن ابن ماجہ/الحج ١٤ (٢٩١٧)، و ٣٨ (٢٩٦٨)، ( تحفة الأشراف: ٥٧٤٥)، و مسند احمد (٣/٩٩)، وسنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٤)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)
وضاحت: ١ ؎: نبی اکرم نے کون سا حج کیا تھا؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہوگئے تھے، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت» اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کرلیا، اور آپ سے کہا گیا: «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔ ٢ ؎: یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے: «قال عبدالله بن شقيق: کان عثمان ينهى عن المتعة وکان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر ؓ کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا۔ ٣ ؎: روایات سے معاویہ ؓ سے پہلے عمر و عثمان ؓ سے ممانعت ثابت ہے، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی، اور معاویہ ؓ کی نہی تحریمی، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ ؓ کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی۔
قال الشيخ الألباني:
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر
Sayyidina lbn Abbas said, “Allahs Messenger ﷺ performed tamattu. And Abu Bakr, Umar and Uthman (also performed it). And the first person to disallow it was Mu’awiyah.’ [Ahmed2732, Nisai 2732]
Top