سنن الترمذی - خرید وفروخت کا بیان - حدیث نمبر 1231
حدیث نمبر: 1231
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ . وَفِي الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا:‏‏‏‏ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَى أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَى أَحَدِهِمَا فَلَا بَأْسَ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَتِ الْعُقْدَةُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَمِنْ مَعْنَى نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ أَبِيعَكَ دَارِي هَذِهِ بِكَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَلَى أَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَكَ بِكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُكَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَبَتْ لَكَ دَارِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.
ایک بیع میں دو بیع کرنا منع ہے۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - ابوہریرہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤ - بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہوگئی ہو، ٥ - شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہوجائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہوجائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ٢ ؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٥٠٥٠) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/البیوع ٧٣ (٤٦٣٦)، موطا امام مالک/البیوع ٣٣ (٧٢) (بلاغا) مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٧٥، ٥٠٣) من غیر ہذا الوجہ ۔
وضاحت: ١ ؎: امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔ ٢ ؎: اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشکاة (2868)، الإرواء (5 / 149)، أحاديث البيوع
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1231
Sayyidina Abu Hurayrah reported that Allah’s Messenger ﷺ forbade combining of two transactions in one. [Nisai 4641]
Top