سنن الترمذی - خرید وفروخت کا بیان - حدیث نمبر 1250
حدیث نمبر: 1250
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُبَايِعُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏احْجُرْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ:‏‏‏‏ هَاءَ وَهَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خِلَابَةَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ الْحَجْرُ عَلَى الرَّجُلِ الْحُرِّ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ إِذَا كَانَ ضَعِيفَ الْعَقْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحْجَرَ عَلَى الْحُرِّ الْبَالِغِ.
جو آدمی بیع میں دھوکہ کھا جائے
انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ١ ؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کرسکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر ؓ سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کو خرید و فروخت سے اس وقت روکا جاسکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤ - اور بعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں ٣ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ٦٨ (٣٥٠١)، سنن النسائی/البیوع ١٢ (٤٤٩٠)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٤ (٢٣٥٤)، (تحفة الأشراف: ١١٧٥)، و مسند احمد ٣/٢١٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سر میں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرم کے ساتھ لڑا تھا پتھر سے شدید زخم آگیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اور عقل میں کمزوری آ گئی تھی اور زبان میں بھی تغیر آگیا تھا لیکن ابھی تمیز کے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔ ٢ ؎: مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ و فریب نہیں کیونکہ دین تو نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔ ٣ ؎: ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2354)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1250
Sayyidina Anas reported that a man who traded often always ended up deceived. The people of his house met the Prophet ﷺ and said, “O Messenger of Allah, forbid him from committing any transaction.” So, he summoned him and disallowed him to trade, but he said, ‘O Messenger of Allah ﷺ I cannot endure without engaging in trade.” The Prophet ﷺ said, ‘Say when you engage in buying and selling this is a transaction on equal terms and there is no fraud or deceiving.” [Abu Dawud 3501, Nisai 4492]
Top