سنن الترمذی - خواب کا بیان - حدیث نمبر 2293
حدیث نمبر: 2293
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَبُو هُرَيْرَة يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَسْتَقُونَ بِأَيْدِيهِمْ فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَكَ فَعَلَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ فَعَلَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ فَقُطِعَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي أَعْبُرُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْبُرْهَا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلَاوَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ فَأَخَذْتَ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَهُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَأْخُذُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو، ‏‏‏‏‏‏أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَوْ أَخْطَأْتُ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَقْسَمْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَتُخْبِرَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تُقْسِمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے تھے: ایک آدمی نے نبی اکرم کے پاس آ کر کہا: میں نے رات کو خواب میں بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور لوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے پی رہے ہیں، کسی نے زیادہ پیا اور کسی نے کم، اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹک رہی تھی، اللہ کے رسول! اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ وہ رسی پکڑ کر اوپر چلے گئے، پھر آپ کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑ کر اوپر چلا گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑ اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا تو رسی ٹوٹ گئی، پھر وہ جوڑ دی گئی تو وہ بھی اوپر چلا گیا، ابوبکر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! - میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں - اللہ کی قسم! مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: بیان کرو ، ابوبکر نے کہا: ابر کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے اور اس سے جو گھی اور شہد ٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے اور اس کی شیرینی اور نرمی مراد ہے، زیادہ اور کم پینے والوں سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، اور آسمان سے زمین تک لٹکنے والی اس رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اوپر اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا اور وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا، تو وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، پھر اس کے بعد ایک تیسرا آدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی، پھر اس کے لیے جوڑ دی جائے گی اور وہ بھی چڑھ جائے گا، اللہ کے رسول! بتائیے میں نے صحیح بیان کیا یا غلط؟ نبی اکرم نے فرمایا: تم نے کچھ صحیح بیان کیا اور کچھ غلط، ابوبکر ؓ نے کہا: میرے باپ ماں آپ پر قربان! میں قسم دیتا ہوں آپ بتائیے میں نے کیا غلطی کی ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا: قسم نہ دلاؤ ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ١٣ (٣٢٦٨)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١٠ (٣٩١٨)، وانظر أیضا: صحیح البخاری/التعبیر ١١ (٧٠٠٠)، و ٤٧ (٧٠٤٦)، وصحیح مسلم/الرؤیا ٣ (٢٢٦٩) (تحفة الأشراف: ١٣٥٧٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: نبی اکرم کا یہ فرمانا کہ تم نے صحیح بیان کرنے کے ساتھ کچھ غلط بیان کیا تو ابوبکر ؓ سے تعبیر بیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی تھی اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ نبی اکرم کی اجازت کے بغیر انہوں نے تعبیر بیان کی یہ ان کی غلطی ہے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ نے انہیں بیان کرنے کی اجازت اپنے اس قول «أعبرها» سے دے دی تھی، بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر ؓ نے نبی اکرم سے آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی تعبیر بیان کرنے کی خواہش ظاہر کردی یہ ان کی غلطی تھی، بعض کا کہنا ہے تعبیر بیان کرنے میں غلطی واقع ہوئی تھی، صحیح بات یہ ہے کہ اگر ابوبکر ؓ اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کو پیش نہ کرتے تو شاید آپ اس کی تعبیر خود بیان کرتے اور ظاہر ہے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیر اس امت کے لیے ایک بشارت ثابت ہوتی اور اس سے جو علم حاصل ہوتا وہ یقینی ہوتا نہ کہ ظنی و اجتہادی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کو پورا کرنا اسی وقت ضروری ہے جب اس سے کسی شر و فساد کا خطرہ نہ ہو اور اگر بات ایسی ہے تو پھر قسم کو پورا کرنا ضروری نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3918)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2293
Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that Sayyidina Abu Hurairah (RA) used to narrate that a man came to the Prophet ﷺ and said, “I saw (in my dream) last night a small cloud from which clarified butter and honey poured down. And I saw people take them in their hands and drink them, some drinking more and some less. And I saw a rope suspended from the heaven down to earth and I saw you, O Messenger of Allah, ﷺ . You grasped it and climbed up. Then a man, after you, grasped it and climbed up. Then another man held it, after him, and climbed up. Then a man held it but it snapped off. However, it was joined-up again and he climbed up”. Abu Bakr (RA) said, “O Messenger of Allah, ﷺ my parents be ransomed to you, by Allah, do let me interpret it’. He said, “(Go ahead) interpret it”. So, he said, “As for the small cloud, it is the cloud of Islam. As for the dripping clarified butter and honey, it is the Qur’an’s softness and sweetness and drinking much and less are those who learn it much and less. As for the rope suspended from the heaven to earth, it is the Truth which you are on. You grasped it and climbed up to Allah. Then a man after you held it and climbed up. Then another man held it and climbed up. Then another held it but it snapped off and was rejoined, and he climbed up. O Messenger of Allah, ﷺ do tell me if I was correct or mistaken”. The Prophet ﷺ said, “You were right in part and mistaken in part”. He said, “I adjure you, O Messenger of Allah, ﷺ may my parents be ransomed to you do inform me where is it that I erred’. The Prophet ﷺ said, “Do not adjure me”. [Bukhari 7046, M2269]
Top