سنن الترمذی - دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 3535
حدیث نمبر: 3535
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا جَاءَ بِكَ يَا زِرُّ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ حَكَّ فِي صَدْرِي الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَكُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏ كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، ‏‏‏‏‏‏لَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَقُلْتُ:‏‏‏‏ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جَهْوَرِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا لَهُ:‏‏‏‏ وَيْحَكَ، ‏‏‏‏‏‏اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ فَإِنَّكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَغْضُضُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْأَعْرَابِيُّ:‏‏‏‏ الْمَرْءُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا زَالَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى ذَكَرَ بَابًا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا عَرْضُهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي عَرْضِهِ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ عَامًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ قِبَلَ الشَّامِ، ‏‏‏‏‏‏خَلَقَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مَفْتُوحًا يَعْنِي لِلتَّوْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
توبہ اور استغفار اور اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی ؓ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا: علم کی تلاش و طلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب و تلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے؟ کہا: جی ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پر ہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں، مگر غسل جنابت کے لیے، پاخانہ پیشاب کر کے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں ، (پہنے رہیں، مسح کا وقت آئے ان پر مسح کرلیں) میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اس دوران کہ ہم رسول اللہ کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد! کہہ کر بلند آواز سے پکارا، رسول اللہ نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا، آ جاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا: تمہارا ناس ہو، اپنی آواز دھیمی کرلو، کیونکہ تم نبی اکرم کے پاس ہو، اور تمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم کے پاس بلند آواز سے بولا جائے، اعرابی نے کہا: (نہ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا، اس نے «المرء يحب القوم ولما يلحق بهم» ١ ؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔ نبی اکرم نے فرمایا: «المرء مع من أحب يوم القيامة» جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا ۔ وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت (مغرب کی طرف) میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہوگیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہوگی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ٩٦ (حسن)
وضاحت: ١ ؎: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔
قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (4 / 73)، وتقدم بعضه برقم (96)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3535
Zirr ibn Hubaysh (RA) narrated: I met Safwan ibn Assal al-Muradiy to ask him about wiping over socks (during ablution). he asked, “What has brought you here, O Zirr?” I said that acquisition of knowledge had brought me to him. He commented, “The angels spread their wings for the seeker of knowledge, pleased at what he desires.” I said that I was confused about wiping over the socks following answer of natures call, though I am one of the sahabah of the Prophet ﷺ . “So, I have come to ask you if you have heard him say anything about it.” He said, “Yes. He had commanded us that when we were on a journey or travellers we should not remove our socks for three days and three nights. But, bath against sexual defilement is an exception. As for ablution after answering nature’s call or awakening from sleep, the socks may be retained” I asked him if he had heard the Prophet ﷺ say anything about love. He said “Yes. We were with Allah’s Messenger on a journey. While we were with him, a villager called him in a loud, sonorous voice, “O Muhammad ﷺ ! So, Allah’s Messenger ﷺ commanded him in the same tone, ‘Come.’ We aid to him, Woe to you! soften your voice. You are before the Prophet ﷺ and you are forbidden this (behavriour).’ He said, ‘By Allah, I will not lower my. voice.’ He added, ‘A man loves his people though he has not met them.’ The Prophet ﷺ said, On the day of resurrection, a man will be with those he loves.’ Then, he did not cease to narrate to us till he said, ‘There is a door to the west whose width is like a journey of forty or seventy years.’ Sufyan said that the door was to the north. Allah created it on the very day He created the heavens and the earth. It lies open for repentance and will not be shut till the sun will rises from it (that is, the west).” [Ahmed 18113, Ibn e Majah 4070]
Top