سنن الترمذی - دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 3578
حدیث نمبر: 3578
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَادْعُهْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ، ‏‏‏‏‏‏مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ وَهُوَ الْخَطْمِيٍّ،‏‏‏‏ وَعُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ هُوَ أَخُو سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.
نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عثمان بن حنیف ؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے ۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے: «اللهم إني أسألک وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضی لي اللهم فشفعه» اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابو جعفر کی روایت سے، ٢- اور ابوجعفر خطمی ہیں ٣- اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٩ (١٣٨٥) (تحفة الأشراف: ٩٧٦٠) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یہی وہ مشہور روایت ہے جس سے انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں، ان میں سے سلفی منہج و فکر کے علماء ( جیسے امام ابن تیمیہ و علامہ البانی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کو اپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپ نے نہیں دیا تھا، بلکہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی، اور اب آپ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہوسکتا، اسی لیے عمر ؓ نے قحط پڑنے پر آپ کی قبر شریف کے پاس آ کر آپ سے دعا کی درخواست نہیں کی، ( آپ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دور کی ہے ) بلکہ انہوں نے آپ کے زندہ چچا عباس ؓ سے دعا کرائی، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپ سے دعا کی درخواست کی جائے، اور اس دعا یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1385)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3578
Sayyidina Uthman ibn Hunayf (RA) narrated: A man who was blind came to the Prophet ﷺ and requested Pray to Allah that He may give me health. He said, “If ‘ou wish, (will pray for you; but if you wish, you may be patient, for that is better for you.’ He said that he may pray for him. So, the Prophet ﷺ commanded him to make ablution and make it very well and pray in these words: O Allah, I ask you—-and plead to you through your Prophet ﷺ Muhammad, Prophet ﷺ of rnercy---l plead by your virtueO to my Lord for my need, this one, that it be granted to me. O Allah, accept his intercession for me. [lMuslim 1384, Ahmed 17240]
Top