سنن الترمذی - روزوں کے متعلق ابواب - حدیث نمبر 692
حدیث نمبر: 692
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي بَكْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ وَذُو الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الْآخَرُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاق يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ.
عید کے دو مہینے ایک ساتھ کم نہیں ہوتے
ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: عید کے دونوں مہینے رمضان ١ ؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ٢٩ دن کے نہیں ہوتے) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم سے مرسلاً روایت کی ہے، ٣- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس حدیث عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان اور ذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندر کم نہیں ہوتے ٢ ؎ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ٢٩ دن کا ہوگا تو دوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہوگا، ٤- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ٢٩ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبار سے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب کی رو سے دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں ٢٩ دن کے ہوسکتے ہیں ٣ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ١٢ (١٩١٢)، صحیح مسلم/الصوم ٧ (١٠٨٩)، سنن ابی داود/ الصوم ٤ (٢٣٢٣)، سنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٥٩)، ( تحفة الأشراف: ١١٦٧٧)، مسند احمد (٥/٣٨) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ عید تو شوال میں ہوتی ہے پھر رمضان کو شہر عید کیسے کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب کی وجہ سے کہا گیا ہے چونکہ عید رمضان ہی کی وجہ سے متحقق ہوتی ہے لہٰذا اس کی طرف نسبت کردی گئی ہے۔ ٢ ؎: اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات دونوں انتیس ( ٢٩) کے ہوتے ہیں، تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عام طور سے دونوں کم نہیں ہوتے ہیں۔ ٣ ؎: اور ایسا ہوتا بھی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1659)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 692
Abdur Rahman ibn Abu Bakrah reported on the authority of his father that Allah’s Messenger ﷺ said, “The months of eid, Ramadan and DhuI Hajjah, do not diminish together”. [Ahmed20501, Bukhari 1912, Muslim 1089, Abu Dawud 2323, Ibn e Majah 1659]
Top