سنن الترمذی - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 621
حدیث نمبر: 621
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ فَلَمَّا قُبِضَ، ‏‏‏‏‏‏عَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ حَتَّى قُبِضَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ فِيهِ فِي خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ شَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَى سِتِّينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الشَّاءِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ. وقَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّاءَ أَثْلَاثًا:‏‏‏‏ ثُلُثٌ خِيَارٌ وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ وَثُلُثٌ شِرَارٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ وَلَمْ يَذْكُرْ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ وَأَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ.
اونٹ اور بکریوں کی زکوة
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ١ ؎، آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر ؓ اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، ان کے بعد عمر ؓ بھی اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، اس کتاب میں تحریر تھا: پانچ اونٹوں میں، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دو سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دو سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دو سال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا: چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے، ایک سو بیس تک، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو سو تک میں دو بکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہر سو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چار سو کو پہنچ جائیں، اور (زکاۃ والے) متفرق (مال) کو جمع نہیں کیا جائے گا ٢ ؎ اور جو مال جمع ہو اسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا ٣ ؎ اور جن میں دو ساجھی دار ہوں ٤ ؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا ۔ زہری کہتے ہیں: جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے، پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی، دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی، پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔ زہری نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابن عمر کی حدیث حسن ہے، ٢- یونس بن یزید اور دیگر کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے، اور زہری نے سالم سے روایت کی ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔ صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، ٣- اور اسی پر عام فقہاء کا عمل ہے، ٤- اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ٣٤ تعلیقا عقب الحدیث (رقم: ١٤٥٠)، سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٦٨)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٩ (١٧٩٨)، ( تحفة الأشراف: ٦٨١٣)، سنن الدارمی/الزکاة ٦ (١٦٦٦) (صحیح) (سند میں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں، لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے)
وضاحت: ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح کتابت حدیث کا عمل شروع ہوگیا تھا، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ نے ( قرآن کے علاوہ ) اپنے ارشادات وفرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام ؓ اجمعین کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ ( تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول کے باب «ما جاء فی رخصۃ کتابۃ العلم» میں دیکھ لیں۔ ٢ ؎: یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے، متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو، جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔ ٣ ؎: اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ٤ ؎: مثلاً دو شریک ہیں، ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1798)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 621
Saalim ibn Abdullah reported from his father that Allah’s Messenger ﷺ compiled the Book of Sadaqah. It had not been sent to the collectors before he died. He had placed it near his sword. When he took over Abu Bakr (RA) complied with it in his actions till he died, and then (RA) till he died. It was recorded in it that a sheep is given for every five camels, two against ten camels, three against fifteen camels, and four against twenty camels. Then, between twenety-five and thirty-five camels, a she-camel of one year age is given, above that till forty-five camels, a two-years old she-camel is given; above that up to sixty camels, a three-year old she-camel is given; then up to seventy-five camels, a four-year old she-camel is given. If their number exceeds that then up to ninety camels, two two-year old she-camels are given. More than that up to a hundred and twenty, two three-year old she camels are given. Above a hundred and twenty, a three-year old she-camel is given against every fifty camels and against every forty camels, one two-year old she-camel is paid in zakah. Concerning sheep, one sheep is given against forty sheep till their number is a hundred and twenty. Then, over that till two hundred sheep, two sheep are given. When that is exceeded up to three hundred sheep, three sheep are paid. Therefter, against every hundred sheep, one sheep is given (in zakah). Then, nothing is paid till the number reaches one hundred. And, sheep or camels of different people are not put together. Also, a single flock is not to be separ[ed to evade (payment of) zakah. And if there are two partners then they must divide (their liabilities) in equal share (among themselves). And, zakah is not to be accepted if an old and a defective animal is offered. Luhri said When the collector comes, he must divide the flock into three kinds the best, the average and the poor category. The collector must collect from the average category. And, Zuhri did not say anything about cows. [Abu Dawud I68, B1451,Ibn e Majah 1798]
Top