سنن الترمذی - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 625
حدیث نمبر: 625
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاق الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا 5 أَهْلَ كِتَابٍ 5 فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ . وَفِي الْبَاب عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ نَافِذٌ.
زکوة میں عمدہ مال لینا مکروہ ہے
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے معاذ ؓ کو یمن (کی طرف اپنا عامل بنا کر) بھیجا اور ان سے فرمایا: تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دی جائے گی ١ ؎، اگر وہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کو بچانا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابن عباس ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں صنابحی ؓ ٢ ؎ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٥)، و ٤١ (١٤٥٨)، والمظالم ١٠ (٢٤٤٨)، والمغازی ٦٠ (٤٣٤٧)، والتوحید ١ (٧٣٧٢)، صحیح مسلم/الإیمان ٧ (١٩)، سنن ابی داود/ الزکاة ٤ (١٥٨٤)، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٤٣٧)، و ٤٦ (٢٥٢٣)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١ (١٧٨٣)، ( تحفة الأشراف: (٦٥١١)، مسند احمد (١/٢٣٣)، سنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥)، ویأتي آخرہ عند المؤلف في البر والصلة ٦٨ (٢٠١٤) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے، مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے، بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے «أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث کانوا» اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور «فقراؤهم» میں «هم» کی ضمیر کو مسلمین کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے، خواہ وہ کہیں کا ہو۔ ٢ ؎: صنابحی سے مراد صنابح بن اعسرا حمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1783)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 625
Sayyidina ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ sent Mu’adh to Yemen. He instructed him : You will come to a people who are ot the scripture, so invite them to bear witness that there is no God but Allah and that I am Allah’s Messenger ﷺ . If they submit to that inform them that Allah has made obligatory for them the five prayers during day and night. If they obey that then inform them that Allah has prescribed on them sadaqah on their wealth to be acquired from their wealthy and paid to their poor. If they submit to that then refrain from taking the best portion of their property as zakah. And, fear the supplication of the wronged one, for there is not any veil between the petition and Allah. [Ahmed 2071,B740,Muslim 19,Abu Dawud 1584,Nisai 2434, Ibn e Majah783]
Top