سنن الترمذی - طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے - حدیث نمبر 67
حدیث نمبر: 67
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنِ الْمَاءِ يَكُونُ فِي الْفَلَاةِ مِنَ الْأَرْضِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ . قَالَ عَبْدَةُ:‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق:‏‏‏‏ الْقُلَّةُ هِيَ:‏‏‏‏ الْجِرَارُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقُلَّةُ الَّتِي يُسْتَقَى فِيهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ مَا لَمْ يَتَغَيَّرْ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ،‏‏‏‏ وَقَالُوا:‏‏‏‏ يَكُونُ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ قِرَبٍ.
اسی کے متعلق دوسرا
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو میدان میں ہوتا ہے اور جس پر درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: جب پانی دو قلہ ١ ؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کر دے گا ٢ ؎۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں: قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ (ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہی قول شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پانی دو قلہ ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کی بویا مزہ بدل نہ جائے، اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ دو قلہ پانچ مشک کے قریب ہوتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ٣٣ (٦٣)، سنن النسائی/الطہارة ٤٤ (٥٢)، والمیاہ ٢ (٣٢٩)، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٥ (٥١٧، ٥١٨) (تحفة الأشراف: ٧٣٠٥)، مسند احمد (١/١٢، ٢٦، ٣٨، ١٠٧)، سنن الدارمی/الطہارة ٥٥ (٧٥٨) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں، یہاں مراد قبیلہ ہجر کے مٹکے ہیں، کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور و معروف تھے، اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، لہٰذا دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی جو موجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دو کو ئنٹل ستائیس کلو گرام ہوتی ہے۔ ٢ ؎: کچھ لوگوں نے «لم يحمل الخبث» کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہوگا یعنی نجس ہوجائے گا، لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں، ایک یہ کہ ابوداؤد کی ایک صحیح روایت میں «اذابلغ الماء قلتین فإنہ لاینجس» ہے، یعنی: اگر پانی اس مقدار سے کم ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک ہوجائے گا، چاہے رنگ مزہ اور بو نہ بدلے، اور اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوگا، الا یہ کہ اس کا رنگ، مزہ، اور بو بدل جائے، لہٰذا یہ روایت اسی پر محمول ہوگی اور «لم يحمل الخبث» کے معنی «لم ينجس» کے ہوں گے، دوسری یہ کہ «قلتين» دو قلے سے نبی اکرم ﷺ نے پانی کی تحدید فرما دی ہے اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہوجائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آ جائیں گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (517)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 67
Sayyidina Ibn Umar (RA) narrated that the Prophet ﷺ was asked about water in the desert lands at which birds and wild beasts come frequently. He said, "If the water is as much as will fill two pitchers then it bears no impurity."
Top